باہر کے شور و غل میں صدائیں ملائے کون
ہر دل میں ایک چور چھپا ہے، بتائے کون
طے پا گئیں جزائے وفا، رائیگانیاں
تحریر ہو جو لوح پہ کہیے مٹائے کون
شوقِ وفا، نہ خوفِ جفا یاد ہے ہمیں
یہ عذر بھی بجا کہ تجھے بھیڑ لے اڑی
اے حیلہ گر! بتا تو یہ مجمع لگائے کون
تجھ کو مِری نِگہ میں اتارا تھا اس نے آپ
مولا نے خود بلند کیا، اب گِرائے کون
خاک آ پڑے ہوا سے تو رِہ جائے کچھ بھرم
برتی ہوئی وفا کی چِتائیں جلائے کون
تُو نے مسل کے پھینک دیا اور چل دیا
ریزوں کو گُوندھ، بارِ دِگر، دل بنائے کون
ہر لمحہ بِیتے نقش پہ رنگ اپنا پھیر دے
اے یادِ رفتگاں! تِرا چہرہ بچائے کون
پُرسہ سنبھالے ہاتھ میں آتے ہیں غمگسار
اپنی شفا ہے ایک نوا میں سنائے کون
دل تھا سمے کے پار ستارے کی گود میں
دھرتی پہ عمر کاٹنے والا تھا ہائے کون
سیماب ظفر
No comments:
Post a Comment