Friday, 7 February 2020

ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی

ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی
تو پھر نِبھے گی کہاں دوستی اگر ہے یہی​
تمہیں دعا بھی ہم آسودگی کی کیسے دیں
جو ہم نے دیکھی ہے آسودگی اگر ہے یہی​
ہمیں بکھرنا تو ہے کل نہیں تو آج سہی
ہمارا کیا ہے تمہاری خوشی اگر ہے یہی​
ابھی نہ جانے ہمیں کتنے دوست کھونے پڑیں
ہماری باتوں میں بے ساختگی اگر ہے یہی​
میں دل میں رکھتا نہیں منہ پہ صاف کہتا ہوں
کمی یہ مجھ میں ہے بیشک کمی اگر ہے یہی​
جو راہ بھٹکوں تو اس کی گلی میں آ نکلوں
خوشا نصیب مِری گمرہی اگر ہے یہی​
مثال دینی تو اپنی ہی ذات کی دینی
تو پھر غرور ہے کیا عاجزی اگر ہے یہی

مرتضیٰ برلاس​

No comments:

Post a Comment