بزرگ، متقی، تاجر، محلے دار سے تُو
ہمارا پوچھ کبھی آ کے تین چار سے تو
تجھے خبر نہیں؟ کتنی طویل ہوتی ہے
جو بات آنکھ سے کرتا ہے اختصار سے تو
میں پہلی بات پہ ماتم کروں یا دُوجی پر
اسی لیے تجھے ہر بار "مات" ہوتی ہے
کوئی سبق نہیں لیتا ہے پچھلی ہار سے تو
خود اپنے آپ کو "آواز" دیتا رہتا ہوں
پکارتا تھا مجھے جس طرح سے پیار سے تو
یقین مان، کہ شدت سے یاد آتا ہے
کسی بھی چائے یا سگریٹ کے اشتہار سے تو
خود اپنے آپ کو فوراً گھسیٹ کر لے جا
میری نگاہ میں پھیلے ہوئے غبار سے تو
پھر اس کے بعد تو رہتا ہے اگلے چھ دن تک
جو میرے دھیان میں آتا ہے سوموار سے تو
ندیم راجہ
No comments:
Post a Comment