Saturday, 8 February 2020

اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا

اگر دردِ محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا
بہارِ گل میں دیوانوں کا صحرا میں پرا ہوتا
جدھر اٹھتی نظر کوسوں تلک جنگل ہرا ہوتا
مۓ گلرنگ لٹتی یوں درِ مے خانہ وا ہوتا
نہ پینے کی کمی ہوتی نہ ساقی سے گِلا ہوتا
ہزاروں جان دیتے ہیں بتوں کی بے وفائی پر
اگر ان میں سے کوئی با وفا ہوتا تو کیا ہوتا
رُلایا اہلِ محفل کو نگاہِ یاس نے میری
قیامت تھی جو اک قطرہ ان آنکھوں سے جدا ہوتا
خدا کو بھول کر انسان کے دل کا یہ عالم ہے
یہ آئینہ اگر صورت نما ہوتا تو کیا ہوتا
اگر دم بھر بھی مٹ جاتی خلش خارِ تمنا کی
دلِ حسرت طلب کو اپنی ہستی سے گِلا ہوتا

چکبست لکھنوی
(برج نرائن چکبست)

No comments:

Post a Comment