محسوس کیوں نہ ہو مجھے بے گانگی بہت
میں بھی تو اس دیار میں ہوں اجنبی بہت
آساں نہیں ہے کشمکشِ ذات کا سفر
ہے آگہی کے بعد غمِ آگہی بہت
ہر شخص پُرخلوص ہے ہر شخص باوفا
اس جانِ جاں سے قطعِ تعلق کے باوجود
اس رہگزر میں آج بھی ہے دلکشی بہت
اس وضعِ احتیاط کی زنجیر کے لیے
میں نے بھی کی ہے شہر میں آوارگی بہت
مستانہ وار وادئ غم طے کرو سؔحر
باقی ہیں زندگی کے تقاضے ابھی بہت
سحر انصاری
No comments:
Post a Comment