آندھی کی زد میں شامِ تمنا جلائی جائے
جس طرح ہو لاج جنوں کی بچائی جائے
بے آب و گیاہ ہے یہ دل کا دشت بھی
اک نہر آنسوؤں کی یہاں بھی بہائی جائے
عاجز ہیں اپنے طالعِ بیدار سے بہت
سب کچھ بدل گیا ہے، مگر لوگ ہیں بضد
مہتاب ہی میں صورتِ جاناں دکھائی جائے
کچھ ساغروں میں زہر ہے کچھ میں شراب ہے
یہ مسئلہ ہے تشنگی کس سے بجھائی جائے؟
شہروں کی سرحدوں پہ ہے صحراؤں کا ہجوم
کیا ماجرا ہے؟ آؤ خبر تو لگائی جائے
نازل ہو جسم و روح پہ جب بے حسی کا قہر
اس وقت دوستو! یہ غزل گنگنائی جائے
شہریار خان
No comments:
Post a Comment