سفر کی ٹھان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
بدل مکان، کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
کہاں کہاں سے وضاحت کروں گا میں غم کی
بس اتنا جان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
میں تیرا بوجھ اٹھانے کا کہہ رہا ہوں، مگر
تِرا خیال کہ سرطان ہے لہو میں مِرے
تِرا یہ دھیان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
کبھی کبھی مِرے آنسو نکال لاتی ہے
مِری اٹھان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
کبھی کبھی مجھے سرگوشیوں میں کہتی ہے
مِری تھکان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
واحد اعجاز میر
No comments:
Post a Comment