Saturday, 15 February 2020

سفر کی ٹھان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے

سفر کی ٹھان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
بدل مکان، کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
کہاں کہاں سے وضاحت کروں گا میں غم کی
بس اتنا جان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
میں تیرا بوجھ اٹھانے کا کہہ رہا ہوں، مگر
مِری نہ مان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
تِرا خیال کہ سرطان ہے لہو میں مِرے
تِرا یہ دھیان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
کبھی کبھی مِرے آنسو نکال لاتی ہے
مِری اٹھان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
کبھی کبھی مجھے سرگوشیوں میں کہتی ہے
مِری تھکان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے

واحد اعجاز میر

No comments:

Post a Comment