یہ مسئلہ تو در و بام کا نہیں جانم
کہ وقت صبح کا یا شام کا نہیں جانم
مِری تو ساری ریاضت ہی رائیگاں ٹھہری
سو واقعی میں کسی کام کا نہیں جانم
تجھے میں کیسے ملوں شب میں زخم گنتے ہوئے
مجھے تو چاہیے بس تُو، بس ایک تُو اور تُو
کوئی بھی شخص تِرے نام کا نہیں جانم
مِرے خلاف اداسی نہیں سنے گی کچھ
سو فائدہ کسی الزام کا نہیں جانم
جو راہِ عشق پہ نکلے ہیں اپنی مرضی سے
تو کوئی خوف بھی انجام کا نہیں جانم
مجھے تو ہجر میں وافر سکوں میسر ہے
تمہارا وصل کسی کام کا نہیں جانم
زین شکیل
No comments:
Post a Comment