Monday 24 February 2020

نہ دھوپ چھاؤں کے رحم و کرم پہ ڈال مجھے

نہ دھوپ چھاؤں کے رحم و کرم پہ ڈال مجھے
تِرا کھلایا ہوا پھول ہوں، سنبھال مجھے
تِری تہوں میں چھپایا ہوا دفینہ ہوں
تُو آستاں ہے مِرا خود سے مت نکال مجھے
میں تیری آنچ سے پگھلی ہوئی ہوں کیمیا گر
تِرے سپرد ہوں اب جیسےچاہے ڈھال مجھے
سویرے آنکھ کی سرخی میں کھوجتی ہوں جواب
تمام رات جگاتا ہے اک سوال مجھے
پِھر اک نظر کی کرامت سے دل ہوا مومن
سپردگی میں عطا ہو گیا کمال مجھے
مِرے سہارے سنبھلتے ہوئے کو کیا معلوم
نگل رہا ہے کوئی بے کراں ملال مجھے
کہاں کہاں پہ لگے گھاؤ، کتنے گہرے ہیں
پلٹ کے دیکھ، سناتا جا میرا حال مجھے
تمہارا شِرک تمہیں راس آ گیا، لیکن
جچے تو کیسے جچے غیر کا جمال مجھے
مِری جبیں کو تِرے در کی خاک خوش آئی
یہاں تلک کہ یہ مٹی ہے اب گُلال مجھے

سیماب ظفر

No comments:

Post a Comment