رات درکار تھا سنبھالا مجھے
دیکھتا ہی رہا پیالہ مجھے
جانے کس شام کا ستارہ ہوں
جانے کس آنکھ نے اجالا مجھے
میرے دل سے اتار دے نہ کہیں
کس طرح میں زمیں کا رِزق ہوا
کس طرح اس زمیں نے پالا مجھے
اور کتنی ہے زندگی میری
اور کرنا ہے کیا ازالہ مجھے
اس سے پہلے نظر نہیں آیا
اس طرح چاند کا یہ ہالہ مجھے
آدمی کس کمال کا ہو گا
جس نے تصویر سے نکالا مجھے
میں تجھے آنکھ بھر کے دیکھ سکوں
اتنا کافی ہے بس اجالا مجھے
اس نے منظر بدل دیا یکسر
چاہیے تھا ذرا سنبھالا مجھے
اور کچھ یوں ہوا کہ بچوں نے
چھینا جھپٹی میں توڑ ڈالا مجھے
یاد ہیں آج بھی رؔسا وہ ہاتھ
اور روٹی کا وہ نوالہ مجھے
رسا چغتائی
No comments:
Post a Comment