Friday, 7 February 2020

دیکھتا ہی رہا پیالہ مجھے​

رات درکار تھا سنبھالا مجھے​
دیکھتا ہی رہا پیالہ مجھے​
جانے کس شام کا ستارہ ہوں​
جانے کس آنکھ نے اجالا مجھے​
میرے دل سے اتار دے نہ کہیں​
ایک دن یہ تِرا حوالہ مجھے​
کس طرح میں زمیں کا رِزق ہوا​
کس طرح اس زمیں نے پالا مجھے​
اور کتنی ہے زندگی میری​
اور کرنا ہے کیا ازالہ مجھے​
اس سے پہلے نظر نہیں آیا ​
اس طرح چاند کا یہ ہالہ مجھے​
آدمی کس کمال کا ہو گا​
جس نے تصویر سے نکالا مجھے​
میں تجھے آنکھ بھر کے دیکھ سکوں​
اتنا کافی ہے بس اجالا مجھے​
اس نے منظر بدل دیا یکسر​
چاہیے تھا ذرا سنبھالا مجھے​
اور کچھ یوں ہوا کہ بچوں نے​
چھینا جھپٹی میں توڑ ڈالا مجھے​
یاد ہیں آج بھی رؔسا وہ ہاتھ​
اور روٹی کا وہ نوالہ مجھے​
رسا چغتائی​

No comments:

Post a Comment