Saturday 15 February 2020

کھینچ کر رات کی دیوار پہ مارے ہوتے

کھینچ کر رات کی دیوار پہ مارے ہوتے
میرے ہاتھوں میں اگرچاند، ستارے ہوتے
ہم نے اک دُوجے کو خود ہار دیا، دکھ ہے یہی
کاش! ہم دنیا سے لڑتے ہوئے ہارے ہوتے
یہ جو آنسو ہیں مِری پلکوں پہ پانی جیسے
اس کی آنکھوں سے ابھرتے ، تو ستارے ہوتے
یار! کیا جنگ تھی جو ہار کے تم کہتے ہو
جیت جاتے تو خسارے ہی خسارے ہوتے
اتنی حیرت تمہیں مجھ پر نہیں ہونی تھی اگر
تم نے کچھ روز، مِری طرح گزارے ہوتے
یہ جو ہم ہیں، احساس میں جلتے ہوئے لوگ
ہم زمیں زاد نہ ہوتے، تو سِتارے ہوتے
تم کو انکار کی خُو مار گئی ہے واحد
ہر بھنور سے نہ الجھتے تو کنارے ہوتے

واحد اعجاز میر

No comments:

Post a Comment