انا کا بوجھ کبھی جسم سے اتار کے دیکھ
مجھے زباں سے نہیں، روح سے پکار کے دیکھ
میری زمین پہ چل تیز تیز قدموں سے
پھر اس کے بعد تو جلوے مِرے غبار کے دیکھ
یہ اشک دل پہ گریں تو بہت چمکتے ہیں
نہ پوچھ مجھ سے تِرے قُرب کا نشہ کیا ہے
تُو اپنی آنکھ میں ڈورے مِرے خمار کے دیکھ
ذرا تجھے بھی تو احساسِ ہجر ہو جاناں
بس ایک رات میرے حال میں گزار کے دیکھ
ابھی تو صرف کمالِ غرور دیکھا ہے
تجھے قسم ہے تماشے بھی انکسار کے دیکھ
محشر آفریدی
No comments:
Post a Comment