سہہ نہ پاؤ گی پھر جدائی کو
چھوڑ دوں میں تیری کلائی کو؟
چند جھوٹی تسلیاں ہوں گی
پاس تیرے ہے کیا صفائی کو؟
اب وہ چپ کی زبان سمجھیں گے
گر جو مفلس کو کچھ شعور آئے
پھر نہ ترسے وہ ایک پائی کو
عشقِ باہم جو ہم اگر تولیں
پھر تو پربت ہے یار رائی کو
اس کی سانسیں سنائی دیتی ہیں
جب بھی باندھا ہے میں نے ٹائی کو
اس نے انصر کا کچھ نہیں کرنا
بس وہ بولے گی کاروائی کو
انصر منیر
No comments:
Post a Comment