Monday 31 August 2020

اندھیرا کروٹ بدل رہا ہے

اندھیرا کروٹ بدل رہا ہے
کہیں تو سورج نکل رہا ہے
سمٹ رہا ہے بدن میں سایہ
چراغ چپ چاپ جل رہا ہے
ڈری ڈری سی ہے کوئی خواہش
خیال کچھ کچھ سنبھل رہا ہے

رفو کریں گے گماں کا دامن ہر ایک شک کو یقیں لکھیں گے

رفو کریں گے گماں کا دامن ہر ایک شک کو یقیں لکھیں گے
جہاں جہاں پر فلک لکھا ہے وہاں وہاں ہم زمیں لکھیں گے
زمانہ تب بھی یزید کا تھا،۔ زمانہ اب بھی یزید کا ہے
پہ ہم بھی ٹھہرے حسینؑ والے نہیں لکھا تھا نہیں لکھیں گے
تِری گلی سے گزر رہے تھے تو دل میں کیا کیا نہ بات آئی
کبھی یہ سوچا کہاں لکھیں گے کبھی یہ سوچا یہیں لکھیں گے

دل پہ یادوں کی ہے قائم حکمرانی ان دنوں

دل پہ یادوں کی ہے قائم حکمرانی ان دنوں
خود پہ نازاں ہے کھنڈر کی ہر نشانی ان دنوں
عاشقی نے لکھ دیا ہے سارا صحرا میرے نام
ہے جنوں کی خوب مجھ پر مہربانی ان دنوں
موسموں نے کر دیا ہے سارے زخموں کو ہرا
بڑھ گئی ہے غمکدے کی شادمانی ان دنوں

کوئی موسم بھی سزاوارِ محبت نہیں اب

کوئی موسم بھی سزاوارِ محبت نہیں اب
زرد پتوں کو ہواؤں سے شکایت نہیں اب 
شور ہی کربِ تمنا کی علامت نہ رہے 
کسی دیوار میں بھی گوشِ سماعت نہیں اب 
جل چکے لوگ تو اب دھوپ میں ٹھنڈک آئی 
تھی جو سورج کو درختوں سے عداوت نہیں اب

جہاز اس کے گناہوں کا بوجھ اٹھا نہ سکا

ڈکٹیٹر ضیاع کے مرنے پر

نہ آئی رت کوئی ایسی کہ وہ رلا نہ سکا
وہ مر گیا تو میں حیرت سے مسکرا نہ سکا
عجیب حادثہ ہے مشینوں کی با ضمیری بھی
جہاز اس کے گناہوں کا بوجھ اٹھا نہ سکا
اک حادثہ ہے مشینوں کی با ضمیری بھی
جہاز اس کے گناہوں کا بوجھ اٹھا نہ سکا

زمیں پر آسمانوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے

زمیں پر آسمانوں کا دباؤ بڑھ رہا ہے🌏
رگیں الجھی ہوئی ہیں اورکھچاؤ بڑھ رہا ہے
مِرا گھر اک کنارے پر ہے اور لمحہ بہ لمحہ
پڑوسی کا میری جانب بہاؤ بڑھ رہا ہے
میں پتھر کی طرح اس کو تکا کرتا تھا اور اب
میرے تکنے سے آئینے کا گھاؤ بڑھ رہا ہے

پیش کی جائے گی پیشانی، ندامت کے لیے

پیش کی جائے گی پیشانی، ندامت کے لیے
اور کچھ وقت لیا جائے گا مہلت کے لیے
دل💓 کہ زندانئ ادراک ہے زنجیر بکف
سانس لیتا ہے تو روزن کی سہولت کے لیے
عرصۂ وصل میں دل💖 نرم کیا جاتا رہا
لحظۂ ہجر کی آتی ہوئی آیت کے لیے

کسی دن میرے گھر وہ مہرباں آیا تو کیا ہو گا

کسی دن میرے گھر وہ مہرباں آیا تو کیا ہو گا
مِرے آنگن میں جنت کا سماں آیا تو کیا ہو گا
نہ اتنا ناز کر اے راہبرِ! منزل شناسی پر
بھٹکنے کی جو ضد پر کارواں آیا تو کیا ہو گا
حریمِ ناز میں جاتے ہوئے اک فکر ہے مجھ کو
پلٹ کر میں کہیں جو شادماں آیا تو کیا ہو گا

آپ کے وعدہ فردا کو دعا دیتے ہیں

آپ کے وعدۂ فردا  کو دعا دیتے ہیں
اور ہم شام کو اک شمع جلا دیتے ہیں
ہم تو ظاہر ہے ہمیشہ سے رہے ہیں سادہ مزاج
دل میں جو بات بھی ہوتی ہے بتا دیتے ہیں
اپنے قاتل کا جہاں نام بتانے میں چلا
لوگ چپکے سے مِرا پاؤں دبا دیتے ہیں

عجیب لوگ ہیں پہلے مجھے پکارتے ہیں

عجیب لوگ ہیں پہلے مجھے پکارتے ہیں
میں بولتا ہوں تو پھر تازیانے مارتے ہیں
یہ زخم روز کا معمول ہیں نہ پوچھا کر
تُو آ کبھی تجھے بازار سے گزارتے ہیں
نفیس لوگوں کی ہوتی ہے ہر ادا بھی نفیس
زیادہ غصے میں ہوں تو گلاب مارتے ہیں

کاٹ کر پاؤں عجب طعنہ دیا جاتا ہے

کاٹ کر پاؤں عجب طعنہ دیا جاتا ہے
لڑکھڑاتے ہوئے شخص ایسے چلا جاتا ہے
شام کے بَین مجھے توڑ کے رکھ دیتے ہیں
ڈھلتا سورج مِرے اعصاب پہ چھا جاتا ہے
اے رفوگر! تِرے ہاتھوں کی نفاست کی قسم
میرے ہر زخم کو عجلت میں سِیا جاتا ہے

اب جو بادل ہیں دھواں تھے پہلے

اس بلندی پہ کہاں تھے پہلے
اب جو بادل ہیں دھواں تھے پہلے
نقش مٹتے ہیں تو آتا ہے خیال
ریت پر ہم بھی کہاں تھے پہلے
اب ہر اک شخص ہے اعجاز طلب
شہر میں چند مکاں تھے پہلے

گھر تو ہمارا شعلوں کے نرغے میں آ گیا

گھر تو ہمارا شعلوں کے نرغے میں آ گیا
لیکن تمام شہر اجالے میں آ گیا
یہ بھی رہا ہے کوچۂ جاناں میں اپنا رنگ
آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آ گیا
اب تو محبتوں کا محبت سے دے جواب
میں خود سے ہار کر تِرے خیمے میں آ گیا

زباں بندی کی عادت ہو گئی ہے

زباں بندی کی عادت ہو گئی ہے
ہمیں زنداں سے الفت ہو گئی ہے
وہ جب سے چھوڑ کر بستی گیا ہے
ہر اک برکت ہی رخصت ہو گئی ہے
خدائے صبح و رب روز روشن
اندھیروں کی حکومت ہو گئی ہے

جلتی رہتی ہے جو مجھ میں کسی نروان کی آگ

جلتی رہتی ہے جو مجھ میں کسی نروان کی آگ
ایک دن مجھ کو جلا ڈالے گی پہچان کی آگ
لڑکیاں لال ہوئیں، رقص میں مصروف رہیں
اپنی مٹھی میں چھپائے ہوئے لوبان کی آگ
میں نے جب ہاتھ کھڑے کر دئیے معلوم ہوا
🔥میری دہلیز تحیر پہ تھی وجدان کی آگ

دیکھو تو روشنی کے سوا اور کچھ بھی ہے

دیکھو تو روشنی کے سوا اور کچھ بھی ہے
یہ کار ہست و بود بجا اور کچھ بھی ہے
یہ کائنات اذن ہے اس کے وجود کا
سننے میں آ رہا ہے بتا اور کچھ بھی ہے
اے میرے مہربان، مِرے دوست، بند کر
کتنی ہے تیری رام کتھا اور کچھ بھی ہے

اتنا یقین رکھ کہ گماں باقی رہے

اتنا یقین رکھ کہ گماں باقی رہے
ایک ذرا کار جہاں باقی رہے
باقی رہے یادوں کی اک قوس قزح
یعنی مِری جائے اماں باقی رہے
شورشِ خوں رقصِ جنوں ختم نہ ہو
قہقہۂ ہم نفساں باقی رہے

تمہارے ہجر کا دریا عبور کرتے ہوئے

تمہارے ہجر کا دریا عبور کرتے ہوئے
میں رو پڑا تھا یہ پہلا قصور کرتے ہوئے
کسی کا لمس ضروری تھا سانس کے مانند
میں ہنس رہا تھا جسے خود سے دور کرتے ہوئے
خدا نے حسنِ تناسب بہت زیادہ دِیا
حسین اور دِکھا وہ غرور کرتے ہوئے

کوئی وجد ہے نہ دھمال ہے ترے عشق میں

کوئی وجد ہے نہ دھمال ہے تِرے عشق میں
میرا دل وقفِ ملال ہے ترے عشق میں
یہ خواب میں بھی ہے خواب کیف و سرور کا
تیرے عشق کا ہی کمال ہے ترے عشق میں
میں تو نکل ہی جاؤں گا وحشتوں کہ حصار سے
یہ تو سوچنا بھی محال ہے ترے عشق میں

کرے گا کون یہاں آئینے ملال ترا

جنوب و مشرق و مغرب تِرے شمال تِرا 
میں کیا کروں مِرے چاروں طرف ہے جال ترا 
جہان سنگ صفت سے یہ کیسی امیدیں 
کرے گا کون یہاں آئینے ملال ترا ؟
یہ لوگ جانے کدھر سے جواب لے آئے 
چھپایا خود سے بھی میں نے ہر اک سوال ترا

مسجد و مندر و بازار ہیں خالی خالی

 مسجد و مندر و بازار ہیں خالی خالی

گرجا گھر خالی ہیں، دربار ہیں خالی خالی

فصل گل لوٹ لی ہے فصل کرونائی نے

باغباں عنقا ہیں، گلزار ہیں خالی خالی

شہر میں کوئی نہیں ہاتھ ملانے والا

لذت وصل سے اب پیار ہیں خالی خالی

جزیروں میں انسانی چہرے اگنے لگے

راپا نوئی سے اقتباس

جزیروں میں انسانی چہرے اُگنے لگے
بموں سے پیدا ہونے والے گڑھوں سے
نئے انسانوں نے جنم لیا
یہ انسان وہ سنتری ہیں
جو دریاؤں کے رخ موڑنے کی طاقت رکھتے ہیں

پابلو نرودا

غلاموں کو میں اپنی خوابیدہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں

ماضی کے دامن میں سوۓ ہوۓ غلاموں کو
میں اپنی خوابیدہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں
ہزاروں مرد اور عورتیں
جو بارش اور طوفان کی نذر ہوۓ

پابلو نرودا

بائیو بائیو مجھ سے باتیں کرو

بائیو بائیو 

بائیو بائیو مجھ سے باتیں کرو
تم نے مجھے زبان عطا کی ہے
تُو نے مجھے 
بارش اور پتوں کی بوچھاڑ کا گیت دیا ہے

پابلو نرودا

٭بائیو بائیو ایک سپینی دریا ہے 

میرے راکھ راکھ گھر کو دیکھو

کانتو جنرل

اقتباس از نظم

غدار جرنیلو
میرے راکھ راکھ گھر کو دیکھو
ٹوٹے پھوٹے سپین کو دیکھو
مکانوں سے اگتے ہوۓ پھولوں کی بجاۓ
اٹھتے ہوۓ شعلوں کو دیکھو

پابلو نرودا

جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا

جب بھی دشمن بن کے اس نے وار کیا
میں نے اپنے لہجے کو تلوار🗡 کیا
میں نے اپنے پھول سے بچوں کی خاطر
کاغذ کے پھولوں🎕 کا کاروبار کیا
میری محنت کی قیمت کیا دے گا تُو؟
میں نے دشت و صحرا کو گلزار کیا

دیواریں اتنی بھی اونچی نہ کرو

رابطہ

اپنی ذات
اپنے گھر
اپنے مذہب
اپنی تہذیب
اور اپنے قبیلے کی
دیواریں اتنی بھی اونچی نہ کرو

محرومی

محرومی

میں ماں باپ کے ہوتے ہوئے
یتیموں کی طرح
زندگی گزار رہا ہوں
تنہا کھڑا
اس کتیا کو دیکھ رہا ہوں
جو اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہی ہے

ہمیں نزدیک کب دل کی محبت کھینچ لاتی ہے

ہمیں نزدیک کب دل کی محبت کھینچ لاتی ہے؟
تجھے تیری، مجھے میری ضرورت کھینچ لاتی ہے
چھپا ہے جو خزانہ تہہ میں ان بنجر زمینوں کی
اسے باہر زمیں سے میری محنت کھینچ لاتی ہے
میں ماضی کو بھلا کر اپنے مستقبل میں زندہ ہوں
نگاہوں سے ہے جو اوجھل بشارت کھینچ لاتی ہے

عکس روئے مصطفٰی سے ایسی زیبائی ملی

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

عکسِ روۓ مصطفٰیﷺ سے ایسی زیبائی ملی
خاکداں روشن ہوا، ذرے کو رعنائی ملی
نعت گوئی سے مجھے ایسی پذیرائی ملی
عام سا تھا آدمی، مجھ کو بھی اونچائی ملی
سر زمینِ طیبہ میں جب آمدِ احمدﷺ ہوئی
کھل اٹھا رنگ چمن پھولوں کو رعنائی ملی

اے کاش موت مجھ کو مدینہ نصیب ہو​

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

اے کاش موت مجھ کو مدینہ نصیب ہو​
کلمہ بھی آپ کا مجھے پڑھنا نصیب ہو
جب وقت ہو قریب مِری موت کا تو پھر
آقا حضور آپﷺ کا جلوہ نصیب ہو
آنکھیں ترس رہی ہیں مِری دید کو مگر
اے کاش مجھ کو روضے پہ جانا نصیب ہو

جب سے ہوا ہے عشق ترے اسم ذات کا

جب سے ہوا ہے عشق ترے اسم ذات کا
آنکھوں میں پھر رہا ہے مرقع نجات کا
مالک ہی کے سخن میں تلون جو پائیے
کہئے یقین لائیے پھر کس کی بات کا
دفتر ہماری عمر کا دیکھو گے جب کبھی
فوراً اسے کرو گے مرقع نجات کا

ہم ہیں اے یار چڑھائے ہوئے پیمانۂ عشق

ہم ہیں اے یار چڑھاۓ ہوۓ پیمانۂ عشق
ترے متوالے ہیں مشہور ہیں مستانۂ عشق
دشمنوں میں بھی رہا ربط محبت برسوں
خوش نہ آیا کسی معشوق کو یارانۂ عشق
مجھ کو جو چاہ محبت کی ہے مجنوں کو کہاں
اس کو لیلیٰ ہی کا سودا ہے میں دیوانۂ عشق

ہوئے ایسے بہ دل ترے شیفتہ ہم دل و جاں کو ہمیشہ نثار کیا

ہوئے ایسے بہ دل ترے شیفتہ ہم دل و جاں کو ہمیشہ نثار کیا
رہ عشق سے پھر نہ ہٹائے قدم رہے محو ترے تجھے پیار کیا
ترے شوق میں دل کی تباہی ہوئی ترے ذوق کی اس پہ گواہی ہوئی
کوئی دم بھی نہ لینے دیا مجھے دم مجھے دشمن صبر و قرار کیا
گئی جاں قفس میں برائے چمن چلی لے کے جہاں سے ہوائے چمن
کبھی ابر کرم نے کیا نہ کرم نہ کسی نے بیان بہار کیا

جنگلوں میں گھنی جھاڑیوں سے نکلتی ہوئی

The Axiom of Infinity

جنگلوں میں گھنی جھاڑیوں سے نکلتی ہوئی
کس نے دیکھی تھیں
صحراؤں میں تِشنگی ناپتی
ڈر کے غاروں میں سہمے ہوئے
چار پایوں کے تن پہ برستی ہوئی مہرباں وُسعتیں؟

وسائل؛ سکھ کے موسم کی نظموں سے

وسائل

سُکھ کے موسم کی نظموں سے
لفظوں کے مُردوں کی بُو پھیلتی جا رہی ہے یہاں
جبکہ سازِ بقا کی صداؤں میں محرومیوں
بے بسیوں کی آہیں گھٹی جاتی ہیں
آپ اپنے جگر نوچ ڈالے ہیں عشاق نے

نادم ہیں قافلے ترے

The Separated Lands of Time

نادِم ہیں قافلے تِرے
شرمندہ سارباں
صبحیں تِری بلاؤں کے رنگوں سے ضوفشاں
ہر رات قہرِ جاوداں
ہر شام بد گماں
پیلی ہے خامشی تِری

نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ

نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ 
اس کی زنجیرِ طلائی سے لڑی میری آنکھ 
اپنے بیمار کو رکھتی ہے چھپا کر تہِ خاک 
کہتے ہیں صاحبِ غیرت ہے بڑی میری آنکھ 
خاک میں مل کے عیاں ہوں گلِ نرگس بن کر 
دیکھ لے گر تِِری پھولوں کی چھڑی میری آنکھ 

سوئے دریا خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا

سُوۓ دریا خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا
موتیوں کی آبرو پر آج پانی پھر گیا
سوئیاں سی کچھ دلِ وحشی میں پھر چبھنے لگیں
ٹھیک ہونے کو لباسِ ارغوانی پھر گیا
سرفروشانِ محبت سے نہ ہو گی آنکھ چار
منہ جو اس کی تیغ کا اے سخت جانی پھر گیا

باغ میں پھولوں کو روند آئی سواری آپ کی

باغ میں پھولوں کو روند آئی سواری آپ کی
کس قدر ممنون ہے بادِ بہاری آپ کی
بے وفائی آپ کی، غفلت شعاری آپ کی
میرے دل نے عادتیں سیکھی ہیں ساری آپ کی
جا بجا ہوتے ہیں دامن گیر دل عشاق کے
ہر قدم پر آج رکتی ہے سواری آپ کی

وہ بہتے دریا کی بے کرانی سے ڈر رہا تھا

وہ بہتے دریا کی بے کرانی سے ڈر رہا تھا
شدید پیاسا تھا اور پانی سے ڈر رہا تھا
نظر، نظر کی یقیں پسندی پہ خوش تھی لیکن
بدن، بدن کی گماں رسانی سے ڈر رہا تھا
سبھی کو نیند آ چکی تھی یوں تو پری سے مل کر
مگر وہ اک طفل جو کہانی سے ڈر رہا تھا

ہر ذرے کی نمود میں اعلان جنگ ہے

ہر ذرے کی نمود میں اعلانِ جنگ ہے
دنیا نہیں ہے دوست یہ میدان جنگ ہے
اس سے شکست و فتح کا اندازہ کیجیے
حالت مِرے عدو کی جو دورانِ جنگ ہے
پھیلا ہوا ہے سرخ اجالا چہار سو
روشن لہو سے شمعِ شبستانِ جنگ ہے

Sunday 30 August 2020

چلے بھی آؤ کہ حجت تمام ہو چکی ہے

چلے بھی آؤ کہ حجت تمام ہو چکی ہے
دِیا جلانے کا مطلب ہے شام ہو چکی ہے
ہوس سے کام چلاتے ہیں یعنی ہر دو فریق
کریں بھی کیا کہ محبت تو خام ہو چکی ہے
گزر چکی ہے اذیت سے چشمِ خواب آثار
سکوتِ شب سے نظر ہم کلام ہو چکی ہے

اداس ہوں دل دکھا ہوا ہے

اداس ہوں، دل دُکھا ہوا ہے
یہ دِین فرقوں میں بٹ گیا ہے
دلوں میں چپ چاپ رہ رہا ہے
یہ راز مجھ پر ابھی کھلا ہے
وہ میرے دکھ درد جانتا ہے
وہ میری آہوں سے آشنا ہے

درد جب شعر میں لاتا ہوں تو رو پڑتا ہوں

درد جب شعر میں لاتا ہوں تو رو پڑتا ہوں
میں تِرا ہجر مناتا ہوں تو رو پڑتا ہوں
ایک بچپن کی کہانی نہیں ہنسنے دیتی
میں تِرے شہر میں آتا ہوں تو رو پڑتا ہوں
مجھ کو ثروت کی حماقت پہ ہنسی آتی تھی
خود کو پٹڑی پہ بٹھاتا ہوں تو رو پڑتا ہوں

کنبے کو ساتھ لے کے مدینے سے چل پڑے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

کنبے کو ساتھ لے کے مدینے سے چل پڑے
شبیرؑ دین کے لیے گھر سے نکل پڑے
اکبرؑ کی تیغ دیکھ کے میدانِ جنگ میں
شمرِ لعین جیسے ہزاروں اچھل پڑے
عباسؑ کوئی آپ سے پانی نہ مانگے گا
عباسؑ لوٹ آئیں کہ زینبؑ سنبھل پڑے

پھر اس کے بعد تو تنہائیوں کے بیچ میں ہیں

پِھر اس کے بعد تو تنہائیوں کے بِیچ میں ہیں
کہ غم کی ٹوٹتی انگڑائیوں کے بیچ میں ہیں
یہ شادیانے فقط سرخوشی کا نام نہِیں
کسی کی چیخیں بھی شہنائیوں کے بیچ میں ہیں
ہمیں تو خوف سا لاحق ہے ٹوٹ جانے کا
تعلقات جو گہرائیوں کے بیچ میں ہیں

دل سے خوشی قریب ہے دیکھو نہ چھوڑ جاؤ تم

دل سے خوشی قرِیب ہے، دیکھو نہ چھوڑ جاؤ تم
آنے کو ہے بہار بھی، لب پر ہنسی سجاؤ تم
پیچیدہ راستے ہیں یہ ان میں عجب ہیں امتحاں
ہم نے تمہیں بتا دیا، ہرگز نہ دل لگاؤ تم
کتنا کہا سنبھال کے، لیکن اثر ہوا نہیں
اپنی بلا سے جان سے جاتے اگر ہو، جاؤ تم

نیند وادیوں سے یہ سلسلہ سا اترا ہے

 نیند وادیوں سے یہ سلسلہ سا اترا ہے

خوشنما دریچوں سے خوشنما سااترا ہے

طلسمی پرندوں کی رنگ چھوڑتی باتیں

پھول پر کوئی بوسہ اک صبا سا ااترا ہے

ہم زمیں کے باسی اور چل پڑے فلک چُھونے

اس لیے خلاؤں سے فاصلہ سا اترا ہے

اسے بھی اے خدا مشہور کر دے

اذیت اس کی ذہنی دور کر دے
اسے بھی اے خدا مشہور کر دے
اسی میں فتح کا تیری ہے امکاں
مجھے گھر میں مِرے محصور کر دے
یہ چہرے، یہ فریب آلود چہرے
انہیں کوئی نظر سے دور کر دے

جانے آیا تھا کیوں مکان سے میں

جانے آیا تھا کیوں مکان سے میں
کیا خریدوں گا اس دکان سے میں
ہو گیا اپنی ہی انا سے ہلاک
دب گیا اپنی ہی چٹان سے میں
ایک رنگین سی بغاوت پر
کٹ گیا سارے خاندان سے میں

اب یہ معیار شہریاری ہے

اب یہ معیار شہریاری ہے
کون کتنا بڑا مداری ہے
ہم نے روشن چراغ کر تو دیا
اب ہواؤں کی ذمہ داری ہے
صرف باہر نہیں محاذ کھلا
میرے اندر بھی جنگ جاری ہے

تمہارے ساتھ سفر کی صداقتیں بھی گئیں

تمہارے ساتھ سفر کی صداقتیں بھی گئیں
جنونِ عشق کی ساری حکایتیں بھی گئیں
تمہارے بعد رہی رُت عجیب گلشن کی
وہ چھاؤں بھی تو گئی وہ تمازتیں بھی گئیں
قدم قدم پہ تھیں بکھری پڑی ہوئی یادیں
چلی سموم تو دل کی امانتیں بھی گئیں

ہمسفر کہیں جس کو اجنبی سا لگتا ہے

ہم سفر کہیں جس کو اجنبی سا لگتا ہے
اک پل کا قصہ بھی اک صدی سا لگتا ہے
وہ جو اک رفاقت تھی اب کہاں رہی باقی
عمر بھر کا رشتہ بھی دو گھڑی سا لگتا ہے
جیسے اک تھکن کوئی جسم و جاں میں اتری ہے
قربتوں کا اک اک پل تشنگی سا لگتا ہے

رویے مار دیتے ہیں یہ لہجے مار دیتے ہیں

رویے مار دیتے ہیں، یہ لہجے مار دیتے ہیں
وہی جو جان سے پیارے ہیں رشتے مار دیتے ہیں
کبھی برسوں گزرنے پر کہیں بھی کچھ نہیں ہوتا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے، کہ لمحے مار دیتے ہیں
کبھی منزل پہ جانے کے نشاں تک بھی نہیں ملتے
جو رستوں میں بھٹک جائیں تو رستے مار دیتے ہیں

گلوں سے سج گیا ہے آج لالہ زار کربلا

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

گلوں سے سج گیا ہے آج لالہ زارِ کربلا
حسینؑ تیرے دم سے ہے یہ اعتبارِ کربلا
حسینیو! ڈٹے رہو یزیدیت کے سامنے
بنو تو حُر بنو، اگر کبھی پکارے کربلا
ابد کی سرخ شام تک وہ دن نہ آئیں گے کبھی
نواسۂ رسولﷺ نے جو دن گزارے کربلا

رات گئے آنکھ کے دشت میں

رات گئے
آنکھ کے دشت میں
خواب، لاغر مسافر کے جیسے
بھٹکتا رہے
نیند بستر پہ کروٹ بدلتی رہے
ٹوٹتی آس کا ایک بجھتا دِیا

اک صف چراغاں میں

اک صفِ چراغاں میں

ہم منڈیر پر رکھے
وہ چراغ ہیں جن کو
روشنی کے دفتر سے
چِٹھیاں نہیں آتیں

رضا اللہ سعدی

عجب اک معرکہ تها وہ

عجب اک، معرکہ
تها وہ
کہ جس میں
منحنی، دبلے
بہت موٹے سے
اور کچھ کچھ
لموچڑ، تهوتهنی والے

سرد لہر چپکے سے

سرد لہر چپکے سے
خون میں اتر آئی
گونجتے سنی دل نے
چار سو جو عالم میں
زرد زرد تنہائی
جسم، چیتھڑا، میلا

نہیں مکرنا وہ میرا رب تھا

نہیں مُکرنا وہ میرا رب تھا
بہت عجب تھا
کہ درد لمحوں میں
ساتھ رہتا، نہ تھل کی وحشی
سلگتی دھوپوں میں
سائبانی کا حق نبھاتا

کشتی والو رکو

کشتی والو رکو
سیپیاں مونگهے موتی
وہیں رہ گئے
میری چنری کی رنگت
سیہ پڑ گئی
میں نے کشتی کهیوئیے کو آواز
دی

آؤ تتلی کے گھر چلتے ہیں

آؤ تتلی کے گھر چلتے ہیں
🦋
چلیں
تنہائی کے
اس غار سے نکلیں
کوئی رستہ بنائیں
اس گھنی، گاڑھی، سیاہی سے نکلنے کا

ذرا سی دیر میں

ذرا سی دیر میں
پوری جنت تعمیر ہو گئی
آدھا جہنم بجھا دیا گیا
سات نئے آسمان کھول دئیے گئے
زمین سے خدا کا فاصلہ معلوم کر لیا گیا
اور میں اس عرصے میں
ایک بوسہ ہی تالیف کر سکا

میں نے وہ نظم لکھی ہے کہ خدا جانتا ہے

 میں نے وہ نظم لکھی ہے کہ خدا جانتا ہے

اس کا ہر لفظ خدائی کا پتا جانتا ہے

میری آنکھوں میں یہ تصویر ذرا غور سے دیکھ

مجھ کو اس شخص سے ملنا ہے، بتا جانتا ہے

میں بھی زنجیر نہیں ہوتا کسی وحشت سے

وہ بھی تنہائی سے بچنے کی دعا جانتا ہے

آ کر عروج کیسے گرا ہے زوال پر

آ کر عروج کیسے گرا ہے زوال پر
حیران ہو رہا ہوں ستاروں کی چال پر
اک اشک بھی ڈھلک کے دکھائے اب آنکھ سے
میں صبر کر چکا ہوں تمہارے خیال پر
آ آ کے اس میں مچھلیاں ہوتی رہیں فرار
ہنستی ہے جل پری بھی مچھیروں کے جال پر

آئنہ ہے خیال کی حیرت

آئینہ ہے خیال کی حیرت
اس پہ تیرے جمال کی حیرت
کوئی چہرہ نہیں، تمنا کا
کچھ نہیں خد وخال کی حیرت
کون سا شرق کس طرح کا غرب
کیا جنوب و شمال کی حیرت

کربلا کون تھے جو ظلم کی شمشیر کے ساتھ

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

کربلا کون تھے جو ظلم کی شمشیر کے ساتھ
سر جدا کرتے رہے نعرۂ تکبیر کے ساتھ
کربلا اپنی جگہ چھوڑ، نجف دور نہیں
پیشتر اس سے کہ چِھد جائے گلا تیر کے ساتھ
دیکھنا، پیش کیا جائے گا روزِ محشر
شام جکڑا ہوا بیمار کی زنجیر کے ساتھ

یہ فخر کم تو نہیں ارض کربلا کے لئے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

یہ فخر کم تو نہیں ارضِ کربلا کے لیے
چنا گیا ہے زمیں پر جسے شفا کے لیے
شہِ نجف کے وسیلے سے جب قبول ہوئی
تو عرش والوں نے بوسے مِری دعا کے لیے
میں کیا کروں کہ مِری نسبتیں حسینی ہیں
یہ ہاتھ اٹھ ہی نہیں سکتے بد دعا کے لیے

بادہ خانے کی روایت کو نبھانا چاہیے

بادہ خانے کی روایت کو نبھانا چاہئے
جام اگر خالی بھی ہو گردش میں آنا چاہئے
آج آنا ہے انہیں، لیکن نہ آنا چاہئے
وعدۂ فردا اصولاً بھول جانا چاہئے
ترک کرنا چاہئے ہر گز نہ رسمِ انتظار
منتظر کو عمر بھر شمعیں جلانا چاہئے

دل مرا درد کی راجدھانی رہا

دل مِرا درد  کی راجدھانی رہا
میرا چہرہ مگر ارغوانی رہا
میرے ساغر میں اک قطرۂ مۓ نہیں
بادہ خانے کا میں جب کہ بانی رہا
آب چہرے پہ جس کے رہی چار دن
عمر بھر اس کو نازِ جوانی رہا

Saturday 29 August 2020

تم دکھی ہو

تم دُکھی ہو

ہزار چہرے پہ خول ڈالو
دکھا دکھا کر
ہنسی ہنسو تم
کرو یہ ظاہر
کہ خوش بہت و
بہت سُکھی و

دل کا خوں کرنے کو آیا تھا مہینہ جون کا

گئے جون کی باتیں

دل کا خوں کرنے کو آیا تھا مہینہ جون کا
درد اترا آنکھ میں زِینہ بہ زِینہ جون کا
آپ کے ماتھے پہ شکنیں اور آنکھوں میں نمی
آ گیا ہے آپ کو گویا قرِینہ جون کا

کھوجتے ہیں آپ کی زلفوں کی مہکاروں کو ہم
سوچتے ہیں لطف کے بہتے ہوئے دھاروں کو ہم

ایک چہرہ بدلنے والے کے نام

ایک چہرہ بدلنے والے کے نام

یہ مانا کہ روشن ستارہ تِرا
اندھیروں میں جلتا ہوا میں دیا
تِرے چار سُو زر کی جھنکار سی
مجھے نہ میسر ہے دو وقت کی
تِری بات کا ہر کسی کو لحاظ
کرے کیوں نہ تُو اپنی قسمت پہ ناز

ہم سے تنہائی کے مارے نہیں دیکھے جاتے

ہم سے تنہائی کے مارے نہیں دیکھے جاتے
بِن تِرے چاند ستارے نہیں دیکھے جاتے
ہارنا دن کا ہے منظور، مگر جانِ عزیز
ہم سے گیسو تِرے ہارے نہیں دیکھے جاتے
دل پھنسا بھی ہو بھنور میں تو کوئی بات نہیں
رنج میں ڈوبتے پیارے نہیں دیکھے جاتے

نہیں ہے اب کوئی رستہ نہیں ہے

نہیں ہے اب کوئی رستہ نہیں ہے
کوئی جُز آپ کے، اپنا نہیں ہے
ہر اک رستے کا پتھر پوچھتا ہے
تجھے کیا کچھ بھی اب دکھتا نہیں ہے
عجب ہے روشنی تاریکیوں سی
کہ میں ہوں اور مِرا سایہ نہیں ہے

کیا خبر اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ آئے

کیا خبر اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ آئے
خود بہ خود تیر نشانے کی طرف لوٹ آئے
سنگ لوٹ آئے پہاڑوں کی طرف آخرِ کار
آئینے آئینہ خانے کی طرف لوٹ آئے
جب کھلا ان پہ کہ نقشہ مِرے صندوق میں ہے
اور کچھ سانپ خزانے کی طرف لوٹ آئے

کوئی تم سے سیکھے یہ آنکھیں بدلنا

یہ باتوں ہی باتوں میں، باتیں بدلنا
کوئی تم سے سیکھے، یہ آنکھیں بدلنا
ہم آسیب کے ڈر سے گھر کیوں بدل لیں
پرندوں🕊 پہ جچتا ہے، شاخیں بدلنا
کچھ اپنا بھی کہہ لو یوں کب تک چلے گا
ردیفیں اُچکنا،۔ زمینیں بدلنا

آخر بگڑ گئے مرے سب کام ہونے تک

آخر بگڑ گئے مِرے سب کام ہونے تک
اک عمر لگ گئی، مجھے ناکام ہونے تک
دلکش دکھائی دیتے ہیں جو لوگ صبح دم
ان پہ نظر نہ ڈالو گے تم شام ہونے تک
جس عشق کو چھپانے میں اک عمر لگ گئی
اک پَل لگا ہے اس کو سر عام ہونے تک

عجب نہیں ہے معالج شفا سے مر جائیں

عجب نہیں ہے معالج شفا سے مر جائیں
مریض زہر سمجھ کر دوا سے مر جائیں
یہ سوچ کر ہی ہمیں خود کشی ثواب لگی
جو کی ہے ماں نے تو پھر بد دعا سے مر جائیں
یہ 'احتجاج' سمندر کے دم کو کافی ہے
کسی کنارے پہ دو چار پیاسے مر جائیں

عیاں ہوئی بڑی شدت سے بے بسی مجھ پر

عیاں ہوئی بڑی شدت سے بے بسی مجھ پر
جب اس نے طنز کی تلوار کھینچ لی مجھ پر
بچھڑنے والے بھلا کس طرح بتاؤں تمہیں
تمہارے بعد جچی ہے جو سادگی مجھ پر
غموں کی دھوپ میں ابرِ سخن امڈ آیا
غزل کی شکل میں برسی ہے شاعری مجھ پر

ہوائے شام کے جھونکے نہیں تھے آرے تھے

جوان بیوہ کی آہوں کے استعارے تھے
ہواۓ شام کے جھونکے نہیں تھے آرے تھے
دلاسہ دیتے ہوئے لوگ کیا سمجھ پاتے
ہم ایک شخص نہیں کائنات ہارے تھے
مِرے کریم!! کھلی آنکھ سے گزار کبھی
وہ قافلے جو مِرے خواب سے گزارے تھے

رشید حسرت بلوچستان کی سنگلاخ سرزمین میں لفظوں سے پھول کھلانے والا شاعر

رشید حسرت

بلاشبہ رشید حسرت بلوچستان کی سنگلاخ سرزمین میں لفظوں سے پھول کھلانے والے شاعر ہیں۔ آپ کا اصل نام عبدالرشید ہے اور آپ شاعری میں حسرت کا تخلص اپنائے ہوئے ہیں۔ آپ بلاشبہ بلوچستان اور خاص کر وادئ کوئٹہ، چلتن اور  ہزار گنجی کی سرزمین میں اردو شاعری کے حوالے سے ایک معتبر نام ہیں یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے ادبی حلقوں میں رشید حسرت شاعری کے حوالے سے اپنی ایک الگ و معتبر پہچان رکھتے ہیں۔ رشید حسرت کا تعلق مِٹھڑی، ضلع کچھّی، بلوچستان سے ہے۔ آپ ۱۹۸۱ سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں روزگار کے سلسلے میں مستقل رہائش پذیر ہیں۔۱۹۸۱ میں آپ نے  عملی  زندگی کی شروعات کیں، ۱۹۸۷ تک بطور کلرک ملازمت اختیار کی، دسمبر ۱۹۸۷ میں وہاں سے استعفی دے کر آپ نے سول سیکریٹریٹ کوئٹہ میں پہلے کلرک پھر اسٹینو گرافر کے طور فرائض انجام دیئے۔ اس دوران آپ نے حصول علم کو جاری رکھا اور اردو میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیمی قابلیت کا میدان سر کرنے کے بعد ستمبر ۱۹۹۵میں آپ کا تقرر بطور لیکچرار ہوا، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے ملازمت کے لیے اردو ادب کی درس و تدریس کا ہی انتخاب کیا جو ان کی اس شعبے سے محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس وقت آپ کوئٹہ کے ایک ڈگری کالج میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے مشاغل میں بھی شعر و سخن ہی سر فہرست ہے۔ ۱۹۸۱ سے ۱۹۹۳ تک یہاں جب کوئٹہ میں باقاعدہ مشاعروں اور شعری نشستوں کا اہتمام ہوا کرتا تھا تب تو کل بلوچستان، کل پاکستان مشاعروں میں شرکت کے مواقع بھی میسر آتے رہے۔ رشید حسرت کو خاص مواقع پر ٹی وی مشاعروں میں شرکت کا اعزاز  بھی مل چکا ہے جہاں وہ ملک کے دیگر شعراء کے ساتھ اپنا کلام سنانے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ بلاشبہ ان کا کلام بہت پختتگی کا حامل ہے جس میں وہ معاشرے کے حساس معاملات پر اپنے خیالات کا اطہار کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کلام بلاگ کی زینت بنا ہوا ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ بھی دیکھنے میں آۓ گا، مجھے یقین ہے کہ قارئین کرام ان کی شاعری سے یقیناً لطف اندوز ہوں گے۔

اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا پکارا تھا کہاں

اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا، پکارا تھا کہاں
روکتے کس طرح وہ شخص ہمارا تھا کہاں
تھی کہاں ربط میں اس کے بھی کمی کوئی مگر
میں اسے پیارا تھا، پر جان سے پیارا تھا کہاں
بے سبب ہی نہیں مرجھائے تھے جذبوں کے گلاب
تُو نے چھو کر غمِ ہستی کو نکھارا تھا کہاں

راحت وصل بنا ہجر کی شدت کے بغیر

راحتِ وصل بنا ہجر کی شدت کے بغیر
زندگی کیسے بسر ہو گی محبت کے بغیر
اب کے یہ سوچ کے بیمار پڑے ہیں کہ ہمیں
ٹھیک ہونا ہی نہیں تیری عیادت کے بغیر
عشق کے ماروں کو آداب کہاں آتے ہیں
تیرے کوچے میں چلے آۓ اجازت کے بغیر

دھیان کی موج کو پھر آئنہ سیما کر لیں

دھیان کی موج کو پھر آئینہ سیما کر لیں
کچھ تجلی کی حضوری کا بھی یارا کر لیں
آج کا دن بھی یوں ہی بیت گیا شام ہوئی
اور اک رات کا کٹنا بھی گوارا کر لیں
جن خیالوں کے الٹ پھیر میں الجھیں سانسیں
ان میں کچھ اور بھی سانسوں کا اضافہ کر لیں

کی شب حشر مری شام جوانی تم نے

کی شبِ حشر مِری شام جوانی تم نے
چھیڑی کس دور کی کس وقت کہانی تم نے
معنی و لفظ میں جو ربط ہے میں جان گیا
کھولے اس طرح سے اسرارِ معانی تم نے
میری آنکھوں ہی میں تھے ان کہے پہلو اسکے
وہ جو اک بات سنی میری زبانی تم نے

نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی

نورِ سحر کہاں ہے، اگر شامِ غم گئی
کب التفات تھا، کہ جو خُوئے ستم گئی
پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے
یہ چال ہے خزاں کی جو رک رک کے تھم گئی
شاید کوئی اسیر ابھی تک قفس میں ہے
پھر موجِ گل چمن سے جو باچشمِ نم گئی

اناؤنسر؛ سرخ بتی نے اشارے سے کہا ہے، بولو

اناؤنسر

سرخ بتی نے اشارے سے کہا ہے، بولو
کھوج نظروں کا مِٹا، بات کے بندھن ٹوٹے
میرے الفاظ کو لہروں کا کوئی پیمانہ
چِین لے جائے گا، دوری کے بہانے جھوٹے
منہ سے جو نکلے، اسی بات سے ناطہ چھوٹے
دل میں باقی رہے موہوم سا احساسِ زیاں

شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے

شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے
دل دھڑکتے ہی رہے آس میں انسانوں کے
علم نے خیر نہ چاہی کبھی انسانوں کی
نقش ملتے رہے کعبے میں صنم خانوں کے
زندگی والہ و شیدا رہی فرزانوں کی
ہم روشن ہوئے ہر دور میں دیوانوں کے

سروں پر سے ردائیں مانگتی ہیں

عہدِ حاضر کی ایک نظم

سروں پر سے رِدائیں مانگتی ہیں
نجانے کیا فِضائیں مانگتی ہیں
نکلتے ہیں پِسر جب گھر سے باہر
دعا جینے کی مائیں مانگتی ہیں
نہِیں کچھ مانگتی ہم سے یہ بہنیں
فقط یہ فاختائیں مانگتی ہیں

روکھی روٹی کما کے لایا ہوں

روکھی روٹی کما کے لایا ہوں
میں کہ بیوی کے سر کا سایا ہوں
غیر نے کیوں سمجھ لیا اپنا
میں تو اپنوں کو بھی پرایا ہوں
ظلم کی فصل کٹ گئی لیکن
ایک میں ہی ابھی بقایا ہوں

ذرا سی باپ مرا کیا زمین چھوڑ گیا

ذرا سی باپ مِرا کیا زمین چھوڑ گیا
ہیں سات بچے، تو ازواج تین چھوڑ گیا
مجھے ملے تو میں اس نوجواں کو قتل کروں
جو بد زباں کے لیے نازنین چھوڑ گیا
رہا جو مفت یہ حجرہ دیا سجا کے اسے
مکاں کشادہ تھا، لیکن مکین چھوڑ گیا

آسمان وقت پر روشن ستارا آپ کا

آسمانِ وقت پر روشن ستارا آپ کا
نقص مجھ کو، فائدہ سارے کا سارا آپ کا
دکھ ہوا یہ جان کر، بیٹے الگ رہنے لگے
کچھ بتاؤ، کس طرح اب ہے گزارا آپ کا؟
باندھ لو رختِ سفر پھر سے مدینہ کے لیے
کچھ نہیں اس کے سوا بس اب تو چارہ آپ کا

کوئی کسی کا دیوانہ نہ بنے تیرِ نظر کا نشانہ نہ بنے

فلمی گیت

کوئی کسی کا دیوانہ نہ بنے
تیرِ نظر کا نشانہ نہ بنے
دیوانہ نہ بنے
کوئی کسی کا

آگ لگے ایسی آگ کو ہائے
جس کے دیکھے سے کوئی جل جائے

او نیند نہ مجھ کو آئے دل میرا گھبرائے

فلمی گیت

او نیند نہ مجھ کو آئے دل میرا گھبرائے
چپکے چپکے کوئی آ کے سویا پیار جگائے
نیند نہ مجھ کو آئے

سویا ہوا سنسار ہے، سویا ہوا سنسار
میں جاگوں یہاں تُو جاگے وہاں
اک دل میں درد دبائے

کوئی آ جائے کوئی آ جائے بگڑی تقدیر بنا جائے

فلمی گیت

کوئی آ جائے، کوئی آ جائے
بگڑی تقدیر بنا جائے
اجڑا سنسار بسا جائے
کوئی آ جائے، کوئی آ جائے

لاکھ بہاریں دیکھی ہیں اس باغ میں میں نے آتے جاتے
پھر بھی کلی نہ دل کی کھلی کوئی آ کر اسے کھلا جائے

چاہت کی لو کو مدھم کر دیتا ہے

چاہت کی لَو کو مدھم کر دیتا ہے 
ڈر جاتا ہے، ملنا کم کر دیتا ہے 
جلدی اچھے ہو جانے کا جذبہ بھی 
زخموں کو وقفِ مرہم کر دیتا ہے 
موت تو پھر بھی اپنے وقت پہ آتی ہے 
موت کا آدھا کام تو "غم" کر دیتا ہے 

رشتوں کی دلدل سے کیسے نکلیں گے

رشتوں کی دلدل سے کیسے نکلیں گے
ہر سازش کے پیچھے اپنے نکلیں گے
چاند ستارے گود میں آ کر بیٹھ گئے
سوچا یہ تھا، پہلی بس سے نکلیں گے
سب امیدوں کے پیچھے مایوسی ہے
توڑو، یہ بادام بھی کڑوے نکلیں گے

یہی تو ہے جو خیالوں سے جا نہیں رہا ہے

یہی تو ہے جو خیالوں سے جا نہیں رہا ہے
یہ آدمی جو مِرا فون اٹھا نہیں رہا ہے
ہمارے بیچ کوئی باوفا نہیں رہا ہے
یہ بات کوئی کسی کو بتا نہیں رہا ہے
کسی کا ساتھ میاں جی سدا نہیں رہا ہے
مگر دلوں کو ابھی صبر آ نہیں رہا ہے

دل جلوہ گاہ صورت جانانہ ہو گیا

دل جلوہ گاہِ صورت جانانہ ہو گیا 
شیشہ یہ ایک دم میں پری خانہ ہو گیا 
شب کیوں کہ سلطنت نہ کرے تاجِ زر سے شمع 
رشکِ پرِ ہما پر پروانہ ہو گیا 
کیفیتوں سے گردشِ چشمِ بتاں کی دل 
شیشہ کبھی بنا، کبھی پیمانہ ہو گیا 

کیا ہوا گر چشم تر سے خوں ٹپک کر رہ گیا

کیا ہوا گر چشم تر سے خوں ٹپک کر رہ گیا 
بادۂ گلگوں کا ساغر تھا چھلک کر رہ گیا 
دل سواد زلف میں ڈھونڈے ہے رستا مانگ کا 
راہ جو بھولا مسافر سو بھٹک کر رہ گیا 
سینکڑوں مر مر گئے ہیں عشق کے ہاتھوں سے آہ 
میں ہی کیا پتھر سے اپنا سر پٹک کر رہ گیا 

جو صورت گیر حسن و عشق کی دنیا کہیں ہوتی

جو صورت گیر حسن و عشق کی دنیا کہیں ہوتی
تِرے ضو کا فلک بنتا مِرے ظل کی زمیں ہوتی
تمنا ہے کہ اب ایسی جگہ کوئی کہیں ہوتی
اکیلے بیٹھے رہتے یاد ان کی دل نشیں ہوتی
وہاں رہتے جہاں دود و فغاں کا آسماں ہوتا
وہاں بستے جہاں خاکسترِ دل کی زمیں ہوتی

محفل میں ذرا ہم سے وہ آنکھیں تو ملائیں

محفل میں ذرا ہم سے وہ آنکھیں تو ملائیں
جو دل میں ہے کہ جائیں سب اور لب نہ ہلائیں
مجذوب عجب ان کی ہیں مستانہ ادائیں
ہر حال میں کیف رلائیں کہ ہنسائیں
یہ ابر، یہ منظر، یہ ہوائیں، یہ فضائیں
کیا شاہدِ فطرت کی ہیں مستانہ ادائیں

وہ کیا جانے کہ زخم دل کہاں تک تھا کہاں تک ہے

عبث کہتا ہے چارہ گر یہاں تک تھا یہاں تک ہے
وہ کیا جانے کہ زخمِ دل کہاں تک تھا، کہاں تک ہے
مِرا خاموش ہو جانا،۔ دلیلِ مرگ ہے گویا
مثالِ نَے مِرا جینا فغاں تک تھا، فغاں تک ہے
نہ دھوکہ دے مجھے ہمدم وہ آیا ہے نہ آئے گا
پیامِ وعدۂ وصلت زباں تک تھا، زہاں تک ہے

آپ کے در پہ بہت دیر سے بیٹھے ہوئے ہیں

آپ کے در پہ بہت دیر سے بیٹھے ہوئے ہیں
ہاتھ اٹھاۓ تھے دعا کے لیے، اٹھے ہوئے ہیں
خواب کب تھا وہ تو اِک نیند کا جھونکا تھا حضور
آپ اب تک اسی اک وہم میں الجھے ہوئے ہیں
💓مدتوں بعد سہی ایک نظر دیکھ تو لو💓
ہم وہی ہیں جو تِرے عشق کے سینچے ہوئے ہیں

ہاتھ اس شخص کو ہم سے بھی تو دھونے پڑے ہیں

اشکِ آخر تو نہیں ہیں جو بلونے پڑے ہیں
دل میں دو چار ابھی اور بھی کونے پڑے ہیں
کس کی دلجوئی کریں اور دلاسا کسے دیں؟؟
کیا کریں ہم کہ ہمیں اپنے ہی رونے پڑے ہیں
ایک دہشت در و دیوار سے چپکی ہوئی ہے
لاش کے پاس ہی بچے کے کھلونے پڑے ہیں

پیروں میں ہیں زنجیریں، ہیں لب پہ مرے پہرے

پیروں میں ہیں زنجیریں، ہیں لب پہ مرے پہرے
اک خوابِ تمنا کے ہیں زخم بہت گہرے
انجان نہیں لیکن، یہ دوست نہیں میرے
میں انکو سمجھتی ہوں پڑھ رکھے ہیں سب چہرے
طوفان سے کیا ڈرنا؟، طوفاں ہی تو اپنا ہے
ساحل سے کہیں بہتر دریا یہ مِرے گہرے

شرار و برق سے ہم تو نئی بنیاد رکھیں گے

شرار و برق سے ہم تو نئی بنیاد رکھیں گے
کہ خار و خس یونہی ہم کو سدا برباد رکھیں گے
نئی طرزِ ستم وہ بھی اگر ایجاد رکھیں گے
تو ہم اب کے نئی لَے نالہ و فریاد رکھیں گے
ہمارے خوں سے لکھی جائیگی تاریخ گلشن کی
ہمیشہ یاد ہم کو دیکھنا "صیاد" رکھیں گے

محبت سے خالی دنوں میں

محبت سے خالی دنوں میں

پھولوں کو پھپھوندی لگ جاتی ہے
اور تتلیاں خود کشی کرنے لگتی ہیں
چاند پر چمگادڑیں بسیرا کر لیتی ہیں
اور سورج سے راکھ گرنے لگتی ہے
شہد سنکھیے کی تاثیر پکڑ لیتا ہے

محبت سے کوئی جگہ خالی نہیں

مرض الموت سے محفوظ

محبت سے کوئی جگہ خالی نہیں
سوائے مٹی سے بھرے پیٹ کے
اور ان آنکھوں کے
جو اندھیرے میں دیکھ لیتی ہیں
کالی دولت
جو ہماری نسلوں کی ہڈیاں بیچ کر جمع کی گئی

Friday 28 August 2020

زندگی نقص زندگی تو نہیں

زندگی نقصِ زندگی تو نہیں
بندگی میں کوئی کمی تو نہیں
آپ کی دوستی سے ڈرتا ہوں
آپ سے کوئی دشمنی تو نہیں
بے اصولی، اصول ہو جائے
آپ پر ایسی بے خودی تو نہیں

پتھر دل انسان بہت ہیں

پتھر دل انسان بہت ہیں
دانا کم، نادان بہت ہیں
جن کو سمجھتے ہیں ہم مشکل
کام وہی آسان بہت ہیں
کس کو خبر کب پورے ہونگے
سینے میں ارمان بہت ہیں

وہ ماتم کر رہے ہیں زندگی کا

بھرم کھلنے نہ پائے بندگی کا
وہ ماتم کر رہے ہیں زندگی کا
تعجب ہے خلوصِ دوستاں پر
نہیں غم دشمنوں کی دشمنی کا
بھڑک اٹھتی ہے دل میں آتشِ غم
خیال آتا ہے جب ان کی گلی کا

یہاں تنگئ قفس ہے وہاں فکر آشیانہ

یہاں تنگئ قفس ہے وہاں فکرِ آشیانہ
نہ یہاں مِرا ٹھکانہ نہ وہاں مِرا ٹھکانہ
مجھے یاد ہے ابھی تک تِرے جور کا فسانہ
جو میں راز فاش کر دوں تجھے کیا کہے زمانہ
نہ وہ پھول ہیں چمن میں نہ وہ شاخِ آشیانہ
فقط ایک برق چمکی کہ بدل گیا زمانہ

تم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک

تم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک
شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک
دیکھیے محفلِ ساقی کا نتیجہ کیا ہو؟
بات شیشے کی پہنچنے لگی پیمانے تک
اس جگہ بزم میں ساقی نے بٹھایا ہے ہمیں
ہاتھ پھیلائیں تو جاتا نہیں 🍷پیمانے تک

اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے

اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے
آپ جیسے بھی ہیں نیت آپ کی جیسی بھی ہے
کھل چکی ہیں اس کے گھر کی کھڑکیاں میرے لیے
رخ مِری جانب رہے گا، بے رخی جیسی بھی ہے
چوٹیاں چھو کر گزرتے ہیں برستے کیوں نہیں
بادلوں کی ایک صورت آدمی جیسی بھی ہے

اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے

اب نہ وہ شور نہ وہ شور مچانے والے
خاک سے بیٹھ گئے خاک اڑانے والے
یہ الگ بات میسر لبِ گویا نہ ہوا
دل میں وہ دھوم کہ سنتے ہیں زمانے والے
کسی منزل کی طرف کوئی قدم اٹھ نہ سکا
اپنے ہی پاؤں کی زنجیر تھے جانے والے

دل نہ دیوانہ ہو یہ اس کو گوارا بھی نہیں

دل نہ دیوانہ ہو یہ اس کو گوارا بھی نہیں
چاک دامان و گریباں ہوں یہ ایماں بھی نہیں
ہم لیے جائیں گے کچھ اس کا بھروسہ بھی نہیں
جان دے دیں یہ محبت کا تقاضا بھی نہیں
بے نیاز آپ سے ہو جائیں یہ ہوتا بھی نہیں
دل ہی جب دیکھتے ہیں کوئی تمنا بھی نہیں

کوئی ادا تو محبت میں پائی جاتی ہے

کوئی ادا تو محبت میں پائی جاتی ہے 
کہ جس پہ جان کی بازی لگائی جاتی ہے 
ستم میں ان کے کمی آج بھی نہیں کوئی 
مگر ادا میں حمیت سی پائی جاتی ہے 
جو سانس لینے سے بھی دل میں دکھتی رہتی ہے 
وہ چوٹ اور بھی ضد سے دکھائی جاتی ہے

پہاڑ لوگ تھے غداریوں پہ وارے گئے

پہاڑ لوگ تھے، غداریوں پہ وارے گئے
پسِ غبار مِرے شہسوار مارے گئے
جزا کے طور پہ زندہ رکھا گیا مجھ کو
سزا کے طور پہ آنکھوں میں تیر مارے گئے
تمہارے بعد وہ تسبیح توڑ دی ہم نے
تمہاری خیر ہو اپنے تو استخارے گئے

بھٹک گیا تھا کسی آنکھ میں قیام سے میں

بھٹک گیا تھا کسی آنکھ میں قیام سے میں
نکل سکا نہ کبھی مے کدے کی شام سے میں
وہ بات بات میں دنیا کی بات کرتا ہے
کلام کیسے کروں ایسے بد کلام سے میں
خدا کرے مجھے مرنے کا ڈھنگ آ جائے
گلا رکھوں تِرے خنجر پہ احترام سے میں

جلا کے رکھتے ہیں لاشوں کو سرد خانے میں

بس اتنا وقت ہی لگنا تھا زہر کھانے میں
جو تو نے صرف کیا ہے دِیا بجھانے میں
خدا کرے کہ مِرے کوزہ گر کو علم نہ ہو
جو لطف آتا ہے بنتے ہی ٹوٹ جانے میں
کہیں یہ بھول نہ جائیں کہ کوئی قید بھی ہے
جھٹکتا رہتا ہوں زنجیر قید خانے میں

ہمیں تو ہر دور میں نئی کربلا ملی ہے

ہمیں تو ہر دور میں نئی کربلا ملی ہے

لبوں پہ الفاظ ہیں کہ پیاسوں کا قافلہ ہے
نمی ہے یہ یا فرات آنکھوں سے بہہ رہی ہے
حیات آنکھوں سے بہہ رہی ہے
سپاہِ فسق و فجور یلغار کر رہی ہے
دلوں کو مسمار کر رہی ہے

کیا مجھے اور بھی کچھ بکھرا ہوا چاہتے ہو

کیا مجھے اور بھی کچھ بکھرا ہوا چاہتے ہو
ایک ٹوٹے ہوئے انسان سے کیا چاہتے ہو
خون پہنا تو ہوا ہے میری امیدوں ‌کا
اور کیسی میرے زخموں سے قبا چاہتے ہو
ظلم کی کون سی یہ قسم ہے ، معلوم نہیں
دوستو، گالیاں دے کر بھی دعا چاہتے ہو

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لئے

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مِرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
وہ مرحلہ ہے کہ اب سیلِ خوں پہ راضی ہیں
ہم اس زمین کو شاداب دیکھنے کے لیے

زندہ رہنا تھا سو جاں نذر اجل کر آیا

زندہ رہنا تھا سو جاں نذرِ اجل کر آیا
میں عجب عقدۂ دشوار کو حل کر آیا
میں نے کی تھی صفِ اعدا سے مبارز طلبی
تیر لیکن صفِ یاراں سے نکل کر آیا
تُو نے کیا سوچ کے اس شاخ پہ وارا تھا مجھے
دیکھ میں پیرہنِ برگ بدل کر آیا

طوائف male

طوائف male 

چهوٹی چهوٹی شاطر آنکهیں
ہونٹوں پر مسکان
اک سانول، سلطان
بهرپور، قوی، مضبوط ہے سین
جیسے کڑی کمان
ہر ناری کی جان

تیرا جب ذکر تیری بات ہو گی

تیرا جب ذکر، تیری بات ہو گی
تو رنگ و نور کی، برسات ہو گی
یہی گر تلخئ حالات ہو گی
تو پھر کیا خاک ان سے بات ہو گی
غضب کی پیاس ہونٹوں پر جمی ہے
تِرے آنگن میں تو برسات ہو گی

اماں جانی تو کیا جانے

اماں جانی

اماں جانی
تُو کیا جانے
تیرے بعد، مرے گالوں پر
کس کس نے تھپڑ مارے ہیں
کس نے پھر، میرے ماتھے پر
اندھی رات کا تلک اُتارا

زہر ٹپکاتی عورت

پستانوں سے زہر ٹپکاتی عورت

یہ عورت ہے، جس کو
محبت کے کوڑے سے
چهیلا گیا ہے
یہ عورت ہے، جس کی
جوانی پہ شبخون مارا تها، اس نے
وہی جس کو اونچے پہاڑوں کی
گهاٹی میں ریشم کے رسوں نے
باندها ہوا تها

عشق مشکل ہے میاں کرنا ذرا دھیان کے ساتھ

عشق مشکل ہے میاں کرنا ذرا دھیان کے ساتھ
زخم دیتے ہیں یہاں لوگ نمک دان کے ساتھ
نیند آئے گی دہکتے ہوئے بستر پہ کہاں
خواب کیا دیکھنے ہیں چشمِ پریشان کے ساتھ
وہ نہیں جانتی اشکوں کا سہارا ہو تو
ہجر کا وقت گزرتا ہے بڑی شان کے ساتھ

پھٹی مشکیں لئے دن رات دریا دیکھنے والے

پھٹی مشکیں لیے دن رات دریا دیکھنے والے
بیاباں بن گئے پانی زیادہ دیکھنے والے
یہاں کوئی مسلسل دیکھنے والا نہیں تجھ کو
ہمارے ساتھ چل ہم ہیں ہمیشہ دیکھنے والے
تمہارے حسن سے انصاف کرنے کا تقاضا ہے
تمہیں دیکھیں زیادہ سے زیادہ دیکھنے والے

شامل مرے غبار میں صحرا اگر نہ ہو

شامل مِرے غبار میں صحرا اگر نہ ہو
مجھ سے تو اک قدم بھی یہ وحشت بسر نہ ہو
کیسے وہ کوہسار کے دکھ کو سمجھ سکے
چشمے پہ جس کو شائبۂ چشمِ تر نہ ہو
پتھر زمیں پہ پھینک کے چھینٹے اڑاوں میں
گر مجھ کو تیری جھیل سی آنکھوں کا ڈر نہ ہو

صدائے ذات کے اونچے حصار میں گم ہے

صدائے ذات کے اونچے حصار میں گم ہے
وہ خامشی کا مسافر پکار میں گم ہے
وہ شہرِ شب کے کنارے چراغ جلتا ہے
کہ کوئی صبح مِرے انتظار میں گم ہے
یہ کہہ رہی ہیں کسی کی جھکی جھکی آنکھیں
بدن کی آنچ نظر کے خمار میں گم ہے

دل دیا ہے ہم نے بھی وہ ماہ کامل دیکھ کر

دل دیا ہے ہم نے بھی وہ ماہِ کامل دیکھ کر

زرد ہو جاتی ہے جس کو شمعِ محفل دیکھ کر

تیرے عارض پہ یہ نقطہ بھی ہے کتنا انتخاب

ہو گیا روشن تِرے رخسار کا تِل دیکھ کر

آئینے نے کر دیا یکتائی کا دعویٰ غلط

نقشِ حیرت بن گئے اپنا مقابل دیکھ کر 

کچھ اشارے وہ سر بزم جو کر جاتے ہیں

کچھ اشارے وہ سرِ بزم جو کر جاتے ہیں

ناوکِ ناز کلیجے میں اتر جاتے ہیں

اہلِ دل راہِ عدم سے بھی گزر جاتے ہیں

نام لیوا تِرے بے خوف و خطر جاتے ہیں

سفرِ زیست ہوا ختم نہ سوچا، لیکن

ہم کو جانا ہے کہاں اور کدھر جاتے ہیں

کثرت وحدانیت میں حسن کی تنویر دیکھ

کثرت وحدانیت میں حسن کی تنویر دیکھ

دیدۂ حق بِیں سے رنگِ عالمِ تصویر دیکھ

اس قدر کھنچنا نہیں اچھا بتِ بے پیر دیکھ

پیار کی نظروں سے سُوئے عاشقِ دلگیر

کام بن بن کر بگڑ جاتے ہیں لاکھوں رات دن

کس قدر ہے مجھ سے برگشتہ مِری تقدیر دیکھ

گمان و شک کے تلاطم اتار پار مجھے

گمان و شک کے تلاطم اتار پار مجھے
نہیں کنارا تو گرداب میں اتار مجھے
جو گل تھے زینتِ دستارِ شہسوارِ بہار
ملے ہیں بن کے غبارِ پسِ بہار مجھے
صلیبِ معرفتِ ذات کائنات ہے آج
وہ دن گئے کہ خوش آتی تھی کوئے یار مجھے

اک زمانے سے نہیں فرصت عشق خوباں

اک زمانے سے نہیں فرصتِ عشقِ خوباں
اپنی وحشت پہ ہے اب بھولے فسانوں کا گماں
فکر کی آگ میں جلنا ہے جہنم کا عذاب
ہو خلا سر میں تو دنیا بھی ہے جنت کا مکاں
رخصتِ غم بھی جو ملتی ہے تو اک دو دن کی
کوئی بچھڑے تو اسے ڈھونڈنے جائیں گے کہاں

سایہ ہے جہاں پھولوں کا وہ در نہیں ملتے

سایہ ہے جہاں پھولوں کا، وہ در نہیں ملتے
جو خلدِ دل و دیدہ ہیں وہ گھر نہیں ملتے
قرآنِ صداقت کو پیمبر نہیں ملتے
جبریل ہیں خاموش، سخن ور نہیں ملتے
خالی ہے مکاں دل کا کے دلبر نہیں ملتے
نظروں کو جو پڑھ لیں وہ نظر ور نہیں ملتے

باز آؤ بتو دل کا ستانا نہیں اچھا

باز آؤ بتو دل💘 کا ستانا نہیں اچھا
یہ گھر ہے خدا کا اسے ڈھانا نہیں اچھا
رخ پر تمہیں گیسو کا دکھانا نہیں اچھا
خورشید کا بدلی میں چھپانا نہیں اچھا
اے داغ تجھے دل سے مٹانا نہیں اچھا
کعبے کا چراغ آہ بجھانا نہیں اچھا

نہانا مت تو اے رشک پری زنہار پانی میں

نہانا مت تو اے رشک پری زنہار پانی میں 
حباب ایسا نہ ہو شیشہ بنے اک بار پانی میں 
سنا اے بحر خوبی تیری اٹکھیلی سے چلنے کی 
اڑائی رفتہ رفتہ موج نے رفتار پانی میں 
جھلک اس تیرے کفش پشتِ ماہی کی اگر دیکھے 
کرے قالب تھی ماہی بھی پھر لاچار پانی میں 

گھر کو جنت نما بنائے وے ہیں

گھر کو جنت نما بنائے وے ہیں
آج کل وہ میرے گھر آئے وے ہیں
ہم سے  اپنا مقابلہ نہ کرو
ہم بڑے گہرے زخم کھائے وے ہیں
کچھ بُرا کر، گزر نہ جائیں کہیں
لوگ حالات کے ستائے وے ہیں

دشت بلا میں ابر نظر آ گیا تو کیا

دشتِ بلا میں ابر نظر آ گیا تو کیا
میں دور ہوں، وہ پاس اگر آ گیا تو کیا
ہم کو تو جھیلنا ہے مسلسل سفر کا دکھ
رستے میں اتفاق سے گھر آ گیا تو کیا
صحراؤں کے سفر سے بھی لوٹا ہوں سرخرو
آگے سمندروں کا سفر آ گیا تو کیا

کبھی عذاب طلب ہوں کبھی امان تلاش

کبھی عذاب طلب ہوں کبھی امان تلاش
میں دھوپ اوڑھ کے کرتا ہوں سائبان تلاش
خلانورد سے مشکل ہے اپنا کام، کہ ہم
زمیں کی گود میں کرتے ہیں آسمان تلاش
کہیں  جگہ نہ ملی ہم کو سر چھپانے کی
گھروں کے شہر میں کرتے رہے مکان تلاش

کوئی گفتگو ہو لب پر تیرا نام آ گیا ہے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

کوئی گفتگو ہو لب پر، تیراﷺ نام آ گیا ہے
تیری مدح کرتے کرتے،۔ یہ مقام آ گیا ہے
درِ مصطفیٰﷺ کا منظر، مِری چشمِ تر کے اندر
کبھی صبح آ گیا ہے،۔ کبھی شام آیا گیا ہے
یہ طلب تھی انبیاء کی رخِ مصطفیٰ کو دیکھیں
یہ نماز کا وسیلہ،۔ انہیں کام آ گیا ہے

جو لمحے تھے سکوں کے سب مدینے میں گزار آئے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

جو لمحے تھے سکوں کے سب مدینے میں گزار آئے​
دلِ مضطر! وطن میں اب تجھے کیسے قرار آئے​
خزاں کو حکم ہے، داخل نہ ہو طیبہ کی گلیوں میں​
اجازت ہے، نسیم آئے،۔ صبا آئے،۔ بہار آئے​
وہ بستی اہلِ دل کی اور دیوانوں کی بستی ہے​
گئے جتنے خرد نازاں وہ دامن تار تار آئے​

آئی پھر یاد مدینے کی رلانے کے لیے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

آئی پھر یاد مدینے کی رلانے کے لیے
دل تڑپ اٹھا ہے دربار میں جانے کے لیے
کاش میں اڑتی پھروں، خاکِ مدینہ بن کر
اور مچلتی رہوں سرکار کو پانے کے لیے
میرے لجپال نے رسوا نہ کبھی ہونے دیا
جب پکارا انہیں آئے ہیں بچانے کے لیے

اس قدر غم ہے کہ اظہار نہیں کر سکتے

اس قدر غم ہے کہ اظہار نہیں کر سکتے
یہ وہ دریا ہے،۔ جسے پار نہیں کر سکتے
آپ چاہیں تو کریں درد کو دل سے مشروط
ہم تو اس طرح کا بیوپار نہیں کر سکتے
جان جاتی ہے تو جائے، مگر اے دشمنِ جاں
ہم کبھی تجھ پہ کوئی وار نہیں کر سکتے

نہ کوئی دن نہ کوئی رات انتظار کی ہے

نہ کوئی دن نہ کوئی رات انتظار کی ہے
کہ یہ جدائی بھروسے کی، اعتبار کی ہے
جو خاک اڑی ہے مِرے دکھ سمیٹ لیں گے اسے
جو بچھ گئی سرِ مژگاں، وہ رہ گزار کی ہے
یہ آرزو کہ کھلے انگلیوں پہ عکسِ جمال
اس آرزو میں کہیں بات اختیار کی ہے

آگ برستی ہے اب اس کی چھاؤں سے

آگ برستی ہے اب اس کی چھاؤں سے
میں نکلا ہوں چھپ کر اپنے گاؤں سے
جنت میرے سینے میں آ جاتی ہے
جب لگتی ہیں پلکیں ماں کے پاؤں سے
آؤ، ان کو چومیں، ان سے پیار کریں
ہیں مانوس جو بوڑھے ہاتھ دعاؤں سے

اک ملاقات سر راہ سے پہلے مرنا

اک ملاقاتِ سرِ راہ سے پہلے مرنا
کتنا آساں تھا، تِری چاہ سے پہلے مرنا
کیا ضروری ہے بھلا کون سی مجبوری ہے
اک پیادے کا، کسی شاہ سے پہلے مرنا
اپنے ان چارہ گروں کو نہ کوئی دکھ دینا
ہونٹ پر آتی ہوئی، آہ سے پہلے مرنا

قسم خدا کی یہی خوف اب ستائے مجھے

قسم خدا کی یہی خوف اب ستائے مجھے
نہ تیرا قرب کہیں دوریاں دکھائے مجھے
وہ چھوڑنا تو چلو چاہتا تھا، چھوڑ دیا
گلی کے موڑ تلک چھوڑنے تو آئے مجھے
ابھی کہا تو نہیں، سچ میں کہنا والا تھا
تو پھر یہ دار پہ کیوں لوگ کھینچ لائے مجھے

سربلندی تو صلیبوں کا مقدر ہے یہاں

سر بلندی تو صلیبوں کا مقدر ہے یہاں
دیکھ لو سامنے محراب ہے منبر ہے یہاں
جس کی تقدیر میں ٹوٹا ہوا آئینہ ہو
اس سے کیا کہیۓ کہ کون سکندر ہے یہاں
کوئی کانٹوں کا بھی دیتا ہے کسی کو تحفہ؟
دل میں رکھنے کا تو احساس کا نشتر ہے یہاں

عجیب شخص ہے پتھر سے پر بناتا ہے

عجیب شخص ہے پتھر سے پر بناتا ہے
دیارِ سنگ میں شیشہ کا گھر بناتا ہے
فضا کا بوجھ سمجھتا ہے چاند سورج کا
وہ گردنوں پہ سجانے کو سر بناتا ہے
جہاں سے قافلۂ وقت راہ بھولا تھا
انہیں سرابوں میں وہ رہگزر بناتا ہے

Thursday 27 August 2020

ذہن زندہ ہے مگر اپنے سوالات کے ساتھ

ذہن زندہ ہے مگر اپنے سوالات کے ساتھ
کتنے الجھاؤ ہیں زنجیرِ روایات کے ساتھ
کون دیکھے گا یہاں دن کے اجالوں کا ستم
یہ ستارے تو چلے جائینگے سب رات کے ساتھ
جانے کس موڑ پہ منزل کا پتہ بھول گئے؟؟
ہم کہ چلتے ہی رہے گردشِ حالات کے ساتھ

خواب جلنے کی بو

خواب جلنے کی بُو

میں اک شاعرہ کے ستاروں میں سوتا
رہا سات دن، سات راتوں کے چکر سے باہر
کہیں دور، صدیوں کی گنتی کی فرسودگی سے پرے
خواب گہ میں
زمانوں کا ریشم لپیٹے ہوئے
یونہی لیٹے ہوئے

موت خوبصورت ہو جاتی ہے

موت خوبصورت ہو جاتی ہے
موسم کی پہلی
ہلکی ہلکی بارش میں
قبرستان کی جانب جانے والے
بوڑھے
بچپن کی خواہش جیسے ہو جاتے ہیں

شاعری کی شرع میں

شاعری کی شرع میں
جوٹھا بوسہ
زندگی کی اترن
باسی محبت
ناخالص بھوک
نابالغ پیاس
استعمال شدہ خواہش

ایک دن کی لاش

 اقتباس از ایک دن کی لاش

وہ رات کیسی تھی
جس نے اپنے تمام بچے نِگل کے
سورج کا خون تھوکا
تو صبح گلیوں میں دن نہیں
دن کی لاش نکلی

علی محمد فرشی

اچانک ایسے جل تھل ہو گئے کیوں

اچانک ایسے جل تھل ہو گئے کیوں
کہ صحرا سارے جنگل ہو گئے کیوں
قدم اس طرح سے شل ہو گئے کیوں
سہارے اتنے بوجھل ہو گئے کیوں
نہیں تخفیف ان میں اک ذرا سی
یہ غم اتنے مسلسل ہو گئے کیوں؟

کسی طرح تو در دل پہ دستکیں دیتے

کسی طرح تو درِ دل پہ دستکیں دیتے
خیالِ سوق کو کچھ اور وحشتیں دیتے
تِرے خیال، تِری چاہتوں کی خواہش میں
خود اپنے آپ کو ہم تو اذیتیں دیتے
بھلا ہوا کہ اجڑ ہی گیا یہ گوشۂ دل
تمہاری یاد کو کب تک یہ زحمتیں دیتے

سارے چہرے بھول چکے ہیں ایک وہ چہرہ یاد رہا

سارے چہرے بھول چکے ہیں ایک وہ چہرا یاد رہا
یاد کا جنگل، غم کا بادل، دکھ کا صحرا یاد رہا
اپنی ساری باتیں تو میں اک اک کر کے بھول چکی
اس کی صورت اس کی باتیں اس کا لہجہ یاد رہا
سارے رستے جاتے جاتے اور طرف کو جا نکلے
اس کی جانب جانے کا پھر کوئی نہ رستہ یاد رہا

ادا شناس ترا بے زباں نہیں ہوتا

ادا شناس تِرا بے زباں نہیں ہوتا
کہے وہ کس سے کوئی نکتہ داں نہیں ہوتا
سب ایک رنگ میں ہیں میکدے کے خوردوکلاں
یہاں تفاوت پیر و جواں نہیں ہوتا
قمارِ عشق میں سب کچھ گنوا دیا میں نے
امیدِ نفع میں خوفِ زیاں نہیں ہوتا

پس پردہ تجھے ہر بزم میں شامل سمجھتے ہیں

پسِ پردہ تجھے ہر بزم میں شامل سمجھتے ہیں
کوئی محفل ہو ہم اس کو تِری محفل سمجھتے ہیں
بڑے ہُشیار ہیں وہ جن کو سب غافل سمجھتے ہیں
نظر پہچانتے ہیں وہ، مزاج دل سمجھتے ہیں
وہ خود کامل ہیں مجھ ناقص کو جو کامل سمجھتے ہیں
وہ حسنِ ظن سے اپنا ہی سا میرا دل سمجھتے ہیں

جلوہ فرماں دیر تک دلبر رہا​

جلوہ فرماں دیر تک دلبر رہا​
اپنی کہہ لی سب نے، میں شسدر رہا​
گو مِرا دشمن زمانہ بھر رہا​
مجھ پہ فضلِ خالقِ اکبر رہا​
گو مِرے در پے عدو اکثر رہا​
جو مِری قسمت کا تھا مل کر رہا​

نہ کوئی خواب کمایا نہ آنکھ خالی ہوئی

نہ کوئی خواب کمایا نہ آنکھ خالی ہوئی
تمہارے ساتھ ہماری بھی رات کالی ہوئی
خدا کا شکر ادا کر، وہ بے وفا نکلا
خوشی منا کہ تِری جان کی بحالی ہوئی
ذرا سے خواب بنے تھے کہ سانس پھول گئی
قدم دکاں پہ رکھا تھا کہ جیب خالی ہوئی

کوئی بھی دار سے زندہ نہیں اترتا ہے

کوئی بھی دار سے زندہ نہیں اترتا ہے
مگر جنون ہمارا نہیں اترتا ہے
تباہ کر دیا احباب کو سیاست نے
مگر مکان سے جھنڈا نہیں اترتا ہے
میں اپنے دل کے اجڑنے کی بات کس سے کہوں
کوئی مزاج پہ پورا نہیں اترتا ہے

جھیل بھی کھو گئی شکارا بھی

جھیل بھی کھو گئی، شکارا بھی
ورنہ، اک خواب تھا ہمارا بھی
میں تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں
مجھ پہ کچھ قرض ہے تمہارا بھی
تیرے آنسو بھی سوکھ جائیں گے
زخم بھر جائے گا ہمارا بھی

وفاداروں پہ آفت آ رہی ہے

وفاداروں پہ آفت آ رہی ہے
میاں لے لو جو قیمت آ رہی ہے
میں اس سے اتنے وعدے کر چکا ہوں
مجھے اس بار غیرت آ رہی ہے
نہ جانے مجھ میں کیا دیکھا ہے اس نے
مجھے اس پر محبت آ رہی ہے

قلزم الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا

قلزمِ الفت میں وہ طوفان کا عالم ہوا

جو سفینہ دل کا تھا درہم ہوا، برہم ہوا

تھامنا مشکل دلِ مضطر کو شامِ غم ہوا

یاد آتے ہی کسی کی، حشر کا عالم ہوا

کیا بتائیں کس طرح گزری شبِ وعدہ مِری

منتظر آنکھیں رہیں، دل کا عجب عالم ہوا

وہ جھنکار پیدا ہے تار نفس میں

وہ جھنکار پیدا ہے تارِ نفس میں

کہ ہے نغمہ نغمہ مِری دسترس میں

تصور بہاروں میں ڈوبا ہوا ہے

چمن کا مزہ مل رہا ہے قفس میں

گلوں میں یہ سرگوشیاں کس لیے ہیں

ابھی اور رہنا پڑے گا قفس میں؟

زلف جاناں پہ طبیعت مری لہرائی ہے

زلف جاناں پہ طبیعت مِری لہرائی ہے

سانپ کے منہ میں مجھے میری قضا لائی ہے

آج مے خانے پہ گھنگھور گھٹا چھائی ہے

ایک دنیا ہے کہ پینے کو امڈ آئی ہے

زلفِ شب رنگ کا عکس یہ پیمانے میں

یا پری کوئی یہ شیشے میں اتر آئی ہے

تم جو نہیں ہو رہنے لگی گھر کے اندر تنہائی

تم جو نہیں ہو، رہنے لگی گھر کے اندر تنہائی
محفل سے بھی مجھ کو اٹھا لاتی ہے جا کر تنہائی
کر کے وداع جو تم کو لوٹا، یار احباب نے بتلایا
پوچھ رہی تھی ملنے والوں سے میرا گھر تنہائی
میں تو کتابوں کی دنیا میں خود کو بہلا لیتا ہوں
میرے نام سے خط لکھتی ہے تم کو اکثر تنہائی

دیوانوں کو منزل کا پتا یاد نہیں ہے

دیوانوں کو منزل کا پتا یاد نہیں ہے
جب سے تِرا نقشِ کفِ پا یاد نہیں ہے
افسردگئ عشق کے کھلتے نہیں اسباب
کیا بات بھلا بیٹھے ہیں کیا یاد نہیں ہے
ہم دلزدگاں جیتے ہیں یادوں کے سہارے
ہاں مٹ گئے جس پر وہ ادا یاد نہیں ہے

دفترِ لوح و قلم یا درِ غم کھلتا ہے

دفترِ لوح و قلم یا درِ غم کھلتا ہے
ہونٹ کھلتے ہیں تو اک بابِ ستم کھلتا ہے
حرفِ انکار ہے کیوں نازِ جہنم کا حلیف
صرف اقرار پہ کیوں بابِ ارم کھلتا ہے
آبرو ہو نہ جو پیاری تو یہ دنیا ہے سخی
ہاتھ پھیلاؤ تو یہ طرزِ کرم کھلتا ہے

کچھ دیر سادگی کے تصور سے ہٹ کے دیکھ

کچھ دیر سادگی کے تصور سے ہٹ کے دیکھ 
لکھا ہوا ورق ہوں مجھے پھر الٹ کے دیکھ 
مانا کہ تجھ سے کوئی تعلق نہیں، مگر 
اک بار دشمنوں کی طرح ہی پلٹ کے دیکھ 
پھر پوچھنا کہ کیسے بھٹکتی ہے زندگی 
پہلے کسی پتنگ کی مانند کٹ کے دیکھ 

جب زبانوں میں یہاں سونے کے تالے پڑ گئے

جب زبانوں میں یہاں سونے کے تالے پڑ گئے 
دودھیا چہرے تھے جتنے وہ بھی کالے پڑ گئے 
ڈوبنے سے پہلے سورج کے نکل آتا ہے چاند 
ہاتھ دھو کر شام کے پیچھے اجالے پڑ گئے 
بلبلے پانی پہ مت سمجھو، ہوائیں قید ہیں 
سانس لینے کے لیے موجوں کو لالے پڑ گئے 

کون پہچانے مجھے شب بھر تو خطروں میں رہا

کون پہچانے مجھے شب بھر تو خطروں میں رہا
وہ اندھیرا ہوں جو دن بھر بند کمروں میں رہا
سب کی نظریں روز پڑتی تھیں کوئی پڑھتا نہ تھا
میں تو ہر اخبار کی گمنام خبروں میں رہا
میں نے دنیا چھوڑ دی لیکن مِرا مُردہ بدن
ایک الجھن کی طرح قاتل کی نظروں میں رہا

ادھر ابر لے چشم نم کو چلا

ادھر ابر لے چشمِ نم کو چلا
ادھر ساقیا! میں بھی یم کو چلا
مبارک ہو کعبہ تمہیں شیخ جی
یہ بندہ تو بیت الصنم کو چلا
سرِ رہگزر آہ، اے بے نشاں
کدھر چھوڑ نقشِ قدم کو چلا

میں ضعف سے جوں نقشِ قدم اٹھ نہیں سکتا​

میں ضعف سے جوں نقشِ قدم اٹھ نہیں سکتا​
بیٹھا ہوں سرِ خاک پہ جم، اٹھ نہیں سکتا​
اے اشکِ رواں! ساتھ لے اب آہِ جگر کو​
عاشق کہیں بے فوج و علم اٹھ نہیں سکتا​
سر معرکۂ عشق میں آساں نہیں دینا​
گاڑے ہے جہاں شمع قدم، اٹھ نہیں سکتا​

بس میں کر ان انگلیوں کے تو نہ پوروں کو حنا

بس میں کر ان انگلیوں کے تو نہ پوروں کو حنا
ہاتھ لگ جائے تو دوں میں تجھ کو چوروں کو حنا
اہلِ دنیا کے کب آیا رنگ درویشی کا ہاتھ 
کیا لگانا چاہئے ہاتھوں میں گوروں کو حنا 
اے صبا کیا منہ ہے جو دعوائے‌ ہمرنگی کرے 
دیکھ کر گلشن میں پھولوں کے کٹوروں کو حنا 

اسے برملا دیکھنا چاہتا ہوں

اسے برملا دیکھنا چاہتا ہوں
ادب اے محبت یہ کیا چاہتا ہوں
غم عشق کا سلسلا چاہتا ہوں
میں تجھ تک تِرا واسطا چاہتا ہوں
کرم ہائے نا مستقل کا گلہ کیا
ستم ہائے بے انتہا چاہتا ہوں

کسی کے نقش قدم کا نشاں نہیں ملتا

کسی کے نقشِ قدم کا نشاں نہیں ملتا
وہ رہگزر ہوں جسے کارواں نہیں ملتا
قدم قدم پہ تِری راہ میں فلک حائل
مجھے تلاش سے بھی آسماں نہیں ملتا
انہیں طریقۂ لطف و کرم نہیں معلوم
ہمیں سلیقۂ آہ و فغاں نہیں ملتا

نہیں یہ جلوہ ہائے رازِ عرفاں دیکھنے والے

نہیں یہ جلوہ ہائے رازِ عرفاں دیکھنے والے
تمہیں کب دیکھتے ہیں کفر و ایماں دیکھنے والے
خدا رکھے تِرے غم کا بہت نازک زمانہ ہے
سحر دیکھیں نہ دیکھیں شام ہجراں دیکھنے والے
یہ کس نے لا کے رکھ دی سامنے تصویر محشر کی
ابھی چونکے ہی تھے خوابِ پریشاں دیکھنے والے

تم اگر سندھ کے لوگوں سے محبت کرتے

تم اگر سندھ کے لوگوں سے محبت کرتے
وہ جو صدیوں سے یہاں رہتے ہیں
ان کی تہذیب کی عزت کرتے
یوں نہ ان خاک نشینوں سے کنارا کرتے
طنز کے تیر نہ مارا کرتے
سندھ کی ارضِ مقدس پہ اگر

درد کم کہاں ہو گا

درد کم کہاں ہو گا

وصل کے زمانے کی
خوشگوار باتوں کو
آہیں بھرتے رہنے سے
درد کم کہاں ہو گا
جی کا ہی زیاں ہو گا

راشد مراد

اک شخص کو بھلا کر

اک شخص کو بھلا کر 

اک شخص کو بھلا کر 
اب زندگی  ہماری
پہلے سے بھی زیادہ
دشوار بن گئی ہے
ہم در بنا رہے تھے
دیوار بن گئی ہے

راشد مراد

کس کو الزام دیں

کس کو الزام دیں
اپنی رسوائی کا
کس سے جا کر کہیں
کرب تنہائی کا
پیار کے کھیل میں
وصل کی صبح سے
ہجر کی شام تک

یہی نہیں کہ ہمیں یار بھول بھال گیا

یہی نہیں کہ ہمیں یار بھول بھال گیا
زمانہ سارا ہی، فردا پہ ہم کو ڈال گیا
دراز قد بھی گرے پستہ قد کے قدموں میں
وہی بڑا ہے جو بارود کو اچھال گیا
زمیں پہ بیٹھ کے گنتے ہیں آؤ سب مل کر
کہ کتنی بھیک ہمیں دے کے پچھلا سال گیا

یہ تبصرہ ہے زمانے کی بیوفائی پر

یہ تبصرہ ہے زمانے کی بے وفائی پر
کہ اعتبار نہیں مجھ کو اپنے بھائی پر
وہی تو شخص یہاں کامیاب ٹھہرا ہے
لگائے قہقہے جو اپنی جگ ہنسائی پر
تُو اپنے شہر میں اک شخص بھی دکھا مجھ کو
جو آج تک نہیں رویا غمِ جدائی پر

پیسے ہوتے تو تجھے لے کے کھلونے دیتا

پیسے ہوتے تو تجھے لے کے کھلونے دیتا
ورنہ کیا میں میرے بچے تجھے رونے دیتا
ہونٹ پر رکھتا ہے انگشتِ شہادت ایسے
بات میری وہ مکمل نہیں ہونے دیتا
ہے تو مفلس وہ مگر اپنی دوائی سے کبھی
خرچ احباب کے پیسے نہیں ہونے دیتا

Wednesday 26 August 2020

دنیا سے اس طرح ہو رخصت غلام تیرا

موت کی یاد بارے کلام

دنیا سے اس طرح ہو رخصت غلام تیرا
ہو دل میں یاد تیری، ہو لب پہ نام تیرا
رگ رگ میں مرتے دم ہو، صدقِ یقیں کے باعث
تیرے نبیﷺ کی وقعت، اور احترام تیرا
منکر نکیر آ کر، دے جائیں یہ بشارت
تجھ کو رہے مبارک، حسنِ ختام تیرا

ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے

كل نفس ذائقۃ الموت

ہمیں کیا جو تُربت پہ میلے رہیں گے
تہِ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے
گل و غنچہ و سرو کھلتے رہیں گے، مہکتے گلاب اور بیلے رہیں گے
بہت سے گرو اور چیلے رہیں گے، بڑے عرس ہوں گے، جھمیلے رہیں گے
ہمیں کیا جو تربت پہ میلے رہیں گے
تہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے

اک دن مرنا ہے آخر موت ہے

بلا شبہ موت برحق ہے

اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے
سرکشی زیر فلک زیبا نہیں، دیکھ جانا ہے تجھے، زیر زمیں
جب تجھے مرنا ہے اک دن بالیقین، چھوڑ فکر ایں و آں کر فکرِ دیں
اک دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے

تیرے ذکر سے میری آبرو تری شان جل جلالہ

حمدِ باری تعالیٰ

تیرے ذکر سے میری آبرو، تیری شان جَلَّ جَلَالُہٗ
تو میرے کلام کا رنگ و بو، تیری شان جَلَّ جَلَالُہٗ
جو چٹک کے غنچہ کھلے یہاں، تو کرے وہ وصف تیرا بیاں
ہے چمن چمن تیری گفتگو، تیری شان جَلَّ جَلَالُہٗ
میرے دل میں عشقِ نبیﷺ دیا، جو دِیا بجھا تھا جلا دیا
جسے چاہے جیسے نوازے تُو، تیری شان جَلَّ جَلَالُہٗ

اے سکون قلب مضطر اے قرار زندگی

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

اے سکونِ قلبِ مضطر اے قرارِ زندگی
اے امینِ رازِ فطرت، اے بہارِ زندگی
تیری ہر ہر جنبشِ لب برگ و بارِ زندگی
تُوﷺ دیارِ عشق میں ہے شہریارِ زندگی
تیرے قدموں کی بدولت تیری آمد کے طفیل
گلستاں ہی گلستاں ہے خار زارِ زندگی

ان پر درود ہر دم ان پر سلام ہر دم

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

ان پر درود ہر دم، ان پر سلام ہر دم
ہر ایک پڑھ رہا ہے دربارِ مصطفیٰﷺ میں
آنسو جو بہہ رہے ہیں، سب حال کہہ رہے ہیں
لب کون کھولتا ہے، دربارِ مصطفیٰﷺ میں
سینہ پہ ہاتھ رکھ کر میں دل کو ڈھونڈتا ہوں
دل مجھ کو ڈھونڈتا ہے، دربارِ مصطفیٰﷺ میں

دریا میں دشت دشت میں دریا سراب ہے

دریا میں دشت، دشت میں دریا سراب ہے
اس پوری کائنات میں کتنا سراب ہے؟
روزانہ اک فقیر لگاتا ہے یہ صدا
دنیا سراب ہے، ارے دنیا سراب ہے
موسیٰ نے ایک خواب حقیقت بنا دیا
ویسے تو گہرے پانی میں رستہ سراب ہے

ٹھنڈ بڑھتی ہے تو انگار فشاں بولتا ہے

ٹھنڈ بڑھتی ہے تو انگارِ فشاں بولتا ہے
آگ بجھتی ہے تو بے چین دھواں بولتا ہے
یا تو ہوتا ہی نہیں ‌مائلِ گویائی کوئی
یا پھر اس شہر میں‌ ہر شخص اماں بولتا ہے
اے کہ شہ رگ سے بھی نزدیک کبھی آنکھ میں آ
میرے ایمان کے پردے میں گماں بولتا ہے

اپنے ہونے کا بھی اظہار نہیں کر سکتا

اپنے ہونے کا بھی اظہار نہیں کر سکتا
میں تجھے کھل کے کبھی پیار نہیں کر سکتا
تُو نے چھوڑا تو یقیں آیا کہ کر سکتا ہے
میں سمجھتا تھا مِرا یار نہیں کر سکتا
جِہل کے ہاتھ میں چپ چاپ مرے گا اک دن
تُو اگر لفظ کو تلوار🗡 نہیں کر سکتا

فضا خاموش غم آلود منظر لگ رہا ہے

فضا خاموش، غم آلود منظر لگ رہا ہے
بھلے کچھ بھی نہ ہو لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے
زمیں سے پاؤں جب لگ جائیں تو نظریں ملانا
ابھی تو آسماں سے آپ کا سر لگ رہا ہے
بہت جلدی میں ہوں، تصدیق پھر آ کر کروں گا
بظاہر دور سے تو وہ مِرا گھر لگ رہا ہے

نجانے کس راستے پہ ہم لوگ چل پڑے ہیں

نجانے کس راستے پہ ہم لوگ چل پڑے ہیں
کہ برسوں پہلے جہاں تھے اب بھی وہیں کھڑے ہیں
وگرنہ، سچ کے سفر میں تنہائی مار دیتی
چلو، یہ دو چار لوگ تو ساتھ چل پڑے ہیں
ابھی اجازت نہیں ملی رزق بانٹنے کی
جہاز ساحل پہ حکم کے منتظر کھڑے ہیں

اجل نظر کرم ان پر یہ جتنے لوگ بیٹھے ہیں

اجل نظرِ کرم ان پر، یہ جتنے لوگ بیٹھے ہیں
کہ بستی جل رہی ہے اور مزے سے لوگ بیٹھے ہیں
اندھیرے میں سفر ہوتا رہا تو کون دیکھے گا
تھکن سے رہنما بیٹھا کہ پہلے لوگ بیٹھے ہیں
قرینہ مے کشی کا ہے، نہ قدرِِ بادہ و مِینا
یہ کیسا میکدہ ہے اور کیسے لوگ بیٹھے ہیں

میرے رونے پر کسی کے چشم گریاں ہائے ہائے

میرے رونے پر کسی کے چشمِ گریاں ہائے ہائے
وہ گُلِ تر وہ فضائے شبنمستاں ہائے ہائے
وہ کسی کی یادِ پیہم شامِ ہجراں ہائے ہائے
ہر نفس وقفِ نوا ہائے پریشاں ہائے ہائے
دل پہ دردِ عشق کا اک ایک احساں ہائے ہائے
جان کی صورت میں کوئی دشمنِ جاں ہائے ہائے

ضبط غم کر بھی لیا تو کیا کیا

ضبط غم کر بھی لیا تو کیا کِیا 
دل کی رگ رگ سے لہو ٹپکا کیا
ہر تجلی آپ کی تصویر تھی
اس لیے میں ہر طرف دیکھا کیا
غم کے شعلے جان تک سرکش ہوئے
عشق سوزِ دل ہی کو رویا ہے کیا

جیسے بھی یہ دنیا ہے جو کچھ بھی زمانہ ہے

جیسے بھی یہ دنیا ہے جو کچھ بھی زمانا ہے 
سب تیری کہانی ہے، سب میرا فسانا ہے 
اک برق سیہ مستی، اک شعلۂ مدہوشی 
مِینا سے گرانا ہے، ساغر سے اٹھانا ہے
تم تک نہ پہنچ جائے لو شمعِ محبت کی 
جب طُور کو پھونکا تھا، اب دل کو جلانا ہے