Friday 28 August 2020

سایہ ہے جہاں پھولوں کا وہ در نہیں ملتے

سایہ ہے جہاں پھولوں کا، وہ در نہیں ملتے
جو خلدِ دل و دیدہ ہیں وہ گھر نہیں ملتے
قرآنِ صداقت کو پیمبر نہیں ملتے
جبریل ہیں خاموش، سخن ور نہیں ملتے
خالی ہے مکاں دل کا کے دلبر نہیں ملتے
نظروں کو جو پڑھ لیں وہ نظر ور نہیں ملتے
جب گھر سے چلو راہ میں ملتے ہیں بہت لوگ
وہ لوگ جو محبوب ہیں اکثر نہیں ملتے
اٹھتے ہیں ڈبونے کو تو ہر روز سمندر
جو پیاس بجھا دیں وہ سمندر نہیں ملتے
جتنے بھی سہے وار، وہ سب وار تھے اوچھے
جو دل میں اتر جائیں وہ خنجر نہیں ملتے
ہم مثلِ صبا پھرتے ہیں آوارہ و برباد
دامن جو پکڑ لیں وہ گلِ تر نہیں ملتے
اک حرفِ محبت سے دل و جاں کو خریدو
ان داموں کسی شہر میں گوہر نہیں ملتے
دل جن کے لیے ہم سے بھی بڑھ جاتا ہے آگے
ملتے تو ہیں پر ٹوٹ کے، بڑھ کر نہیں ملتے
اک دن تھا کہ تھا زانوئے گل ہم کو میسر
یہ دن بھی ہیں سر رکھنے کو پتھر نہیں ملتے
جن راہوں میں تھی بھیڑ رفیقانِ سفر کی
ان راہوں میں یادوں کے بھی پیکر نہیں ملتے
یاں اب بھی تعلق کی خلش ہے رگِ جاں میں
واں ترکِ تعلق کے بھی نشتر نہیں ملتے
سنجیدگیِ ضبطِ جنوں ہو گئی نایاب
پھٹتے ہیں گریباں تو رفوگر نہیں ملتے
آشفتگیِ عشق کو ملتا نہیں صحرا
اور عقل کو تخیل کے شہپر نہیں ملتے
جھک کر نہ ملو پھر بھی وحید ایسا جنوں کیا
کیوں تم بھی بڑے لوگوں سے اٹھ کر نہیں ملتے ​

وحید اختر

No comments:

Post a Comment