Monday, 31 August 2020

مسجد و مندر و بازار ہیں خالی خالی

 مسجد و مندر و بازار ہیں خالی خالی

گرجا گھر خالی ہیں، دربار ہیں خالی خالی

فصل گل لوٹ لی ہے فصل کرونائی نے

باغباں عنقا ہیں، گلزار ہیں خالی خالی

شہر میں کوئی نہیں ہاتھ ملانے والا

لذت وصل سے اب پیار ہیں خالی خالی

مسئلہ وہ ہے کہ حل جس کا نکلتا ہی نہیں

اب مسیحاؤں کے افکار ہیں خالی خالی

حسنِ یوسف کا بھی گاہک نہیں بازاروں میں

جیب و دامانِ خریدار ہیں خالی خالی

اب کوئی شیریں سخن کیسے میسر ہو ہمیں

جبکہ اخلاص سے اظہار ہیں خالی خالی

جتنے عابد تھے ہوئے قید گھروں کے اندر

شہر میں صاحب ایثار ہیں خالی خالی


عابد کمالوی

No comments:

Post a Comment