Monday 31 August 2020

نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ

نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ 
اس کی زنجیرِ طلائی سے لڑی میری آنکھ 
اپنے بیمار کو رکھتی ہے چھپا کر تہِ خاک 
کہتے ہیں صاحبِ غیرت ہے بڑی میری آنکھ 
خاک میں مل کے عیاں ہوں گلِ نرگس بن کر 
دیکھ لے گر تِِری پھولوں کی چھڑی میری آنکھ 
اس طرح ذبح کیا تیغِ نِگہ سے مجھ کو 
خود وہ کہتے ہیں کہ ظالم ہے بڑی میری آنکھ 
حسرتِ دِید میں پتھرا کے بنی سنگِ در 
نہ ہٹی پھر تِرے در پر جو اَڑی میری آنکھ 
رات بھر اشک کے دانوں پہ گِنا کرتی ہے 
فرقتِ یار میں ایک ایک گھڑی میری آنکھ 
دل کے ٹکڑے مِری پلکوں میں جو دیکھا تو کہا 
جانتی تھی انہیں پھولوں کی چھڑی میری آنکھ 
دوڑ کر مجھ سے گلے مل گئے ملتے ہی نظر 
دل کی تقدیر لڑی، یا کہ لڑی میری آنکھ 
اے شبِ وصل نہ معلوم یہ کیا کر گئی تُو 
بند ہوتی نہیں اب کوئی گھڑی میری آنکھ 
کہتے ہیں آنکھ لڑاتے ہی تُو پتھر بن جاۓ 
ہے تِرا دل تو بہت نرم کڑی میری آنکھ 
یادِ خالِ رخِ جاناں کی مدد سے ناصح 
شبِ فرقت کے ستاروں سے لڑی میری آنکھ 
ہو گئی فرطِ نزاکت سے حیا کی شہرت 
آ گیا ان کو پسینہ جو لڑی میری آنکھ 
ہے جو اشکوں میں اداہٹ تو نہ گھبرا اے دل 
روئی ہے دیکھ کے مسی کی دھڑی میری آنکھ 

تعشق لکھنوی

No comments:

Post a Comment