Sunday, 30 August 2020

نیند وادیوں سے یہ سلسلہ سا اترا ہے

 نیند وادیوں سے یہ سلسلہ سا اترا ہے

خوشنما دریچوں سے خوشنما سااترا ہے

طلسمی پرندوں کی رنگ چھوڑتی باتیں

پھول پر کوئی بوسہ اک صبا سا ااترا ہے

ہم زمیں کے باسی اور چل پڑے فلک چُھونے

اس لیے خلاؤں سے فاصلہ سا اترا ہے

آنکھ میں کئی جگنو بے سلیقہ جُھولے اور

خاک میں نہانے کو سلسلہ سا اترا ہے

بادلوں کی اس جانب کون بانٹتا ہے دُکھ

میری صبحوں میں کیسا ملگجا سا اترا ہے

اس سے گفتگو کے باب بند ہوتے جاتے ہیں

کس بلا کا آنکھوں میں رتجگا سا اترا ہے

کوئی رقص کرتا ہے اس وجود کے اندر

کھنکھناتی ساعت کا آسرا سا اترا ہے

عرق عرق ہوتے تھے دھوپ کی تمازت سے

اک شجر رشید حسرت اب گھٹا سا اترا ہے


رشید حسرت

No comments:

Post a Comment