نیند وادیوں سے یہ سلسلہ سا اترا ہے
خوشنما دریچوں سے خوشنما سااترا ہے
طلسمی پرندوں کی رنگ چھوڑتی باتیں
پھول پر کوئی بوسہ اک صبا سا ااترا ہے
ہم زمیں کے باسی اور چل پڑے فلک چُھونے
اس لیے خلاؤں سے فاصلہ سا اترا ہے
آنکھ میں کئی جگنو بے سلیقہ جُھولے اور
خاک میں نہانے کو سلسلہ سا اترا ہے
بادلوں کی اس جانب کون بانٹتا ہے دُکھ
میری صبحوں میں کیسا ملگجا سا اترا ہے
اس سے گفتگو کے باب بند ہوتے جاتے ہیں
کس بلا کا آنکھوں میں رتجگا سا اترا ہے
کوئی رقص کرتا ہے اس وجود کے اندر
کھنکھناتی ساعت کا آسرا سا اترا ہے
عرق عرق ہوتے تھے دھوپ کی تمازت سے
اک شجر رشید حسرت اب گھٹا سا اترا ہے
رشید حسرت
No comments:
Post a Comment