درد جب شعر میں لاتا ہوں تو رو پڑتا ہوں
میں تِرا ہجر مناتا ہوں تو رو پڑتا ہوں
ایک بچپن کی کہانی نہیں ہنسنے دیتی
میں تِرے شہر میں آتا ہوں تو رو پڑتا ہوں
مجھ کو ثروت کی حماقت پہ ہنسی آتی تھی
میرے شعروں میں حوالے ہیں کسی ملکہ کے
اس لیے شعر سناتا ہوں تو رو پڑتا ہے
یہ اداسی مجھے پُرکھوں سے ملی ورثے میں
جب اسے دل سے لگاتا ہوں تو پڑتا ہوں
میں مصور تھا تِرے حسن میں رنگ بھرتا تھا
اب کوئی شکل بناتا ہوں تو رو پڑتا ہوں
تلخ لہجوں کو چھپاتا ہوں ہنسی میں، لیکن
غم کی دہلیز پہ جاتا ہوں تو رو پڑتا ہوں
میرے ہر درد سے واقف ہے مِرا رب حمزہ
خود کو سجدے میں گراتا ہوں تو رو پڑتا ہوں
حمزہ نقوی
No comments:
Post a Comment