کوئی وجد ہے نہ دھمال ہے تِرے عشق میں
میرا دل وقفِ ملال ہے ترے عشق میں
یہ خواب میں بھی ہے خواب کیف و سرور کا
تیرے عشق کا ہی کمال ہے ترے عشق میں
میں تو نکل ہی جاؤں گا وحشتوں کہ حصار سے
سرِ دشت محوِ تلاشِ منزلِ آگہی
کوئی آپ اپنی مثال ہے ترے عشق میں
یہ جو راکھ ہوتا ہے پتنگ میرے سامنے
یہی رنگِ شوقِ وصال ہے ترے عشق میں
تجھے مل کہ خود سے بھی مل رہا ہوں میں شوق سے
میرا خود سے ربط بحال ہے ترے عشق میں
کئی دن سے ہیں میری ہمسفر نئی حیرتیں
یہ عروج ہے کہ زوال ہے ترے عشق میں
شمشیر حیدر
No comments:
Post a Comment