پیش کی جائے گی پیشانی، ندامت کے لیے
اور کچھ وقت لیا جائے گا مہلت کے لیے
دل💓 کہ زندانئ ادراک ہے زنجیر بکف
سانس لیتا ہے تو روزن کی سہولت کے لیے
عرصۂ وصل میں دل💖 نرم کیا جاتا رہا
پیڑ کی کوکھ میں جلتا ہے دِیا اور اوپر
شاخ پر پھول جمع ہیں مِری تربت کے لیے
تاکہ چندھیا دئیے جائیں سبھی پیوستہ چراغ
دھوپ رکھی گئی منظر کی حفاظت کے لیے
تتلیاں پھول سے خوشبو تو نہیں لیتی ہیں
سرگراں رہتی ہیں باغوں میں محبت کے لیے
میں نے افلاک کیے چاک، ادھر جا نکلا
یہ جہاں کافی نہیں تھا مِری وحشت کے لیے
تاکہ نم کھینچ لیا جائے تِری آنکھوں کا
آنکھ سے آنکھ ملائی تھی تراوت کے لیے
جیت تو شاہ کی ہونی ہے، ہمارا کیا ہے؟
ہم پیادے ہیں کسی وقت ضرورت کے لیے
بالوں میں چاندی اتر آئی ہے سعدی یعنی
تھوڑا سا کام نکل آیا "مرمت" کے لیے
رضا اللہ سعدی
No comments:
Post a Comment