کشتی والو رکو
سیپیاں مونگهے موتی
وہیں رہ گئے
میری چنری کی رنگت
سیہ پڑ گئی
میں نے کشتی کهیوئیے کو آواز
کتنے ترلے کئے، ہاتھ جوڑے بہت
سارے ساتهی درختوں نے
منت بهی کی
نِیم تڑپی بہت
کیکروں نے کہا
سارے جامن بهی چیخا کئے
رات دن
گهاس پیروں میں پڑ کے
سسکتی رہی
اور کہتی رہی
کشتی والو سنو
ایک پل تو رکو
وقت کی اس سسی کو
نہ چهوڑو
یہاں
بیٹ کی وحشتوں میں درندے
بهی ہیں
نوچ لیتے ہیں جو
رستہ تکتی ہوئی
آنکھ بهی
ایسے وحشی پرندے بهی ہیں
جانے والو رکو
یوں نہ جاؤ ابهی
مر نہ جائے کہیں
چُنری والی یہیں
شاہین ڈیروی
(ڈاکٹر صابرہ شاہین)
No comments:
Post a Comment