دیکھو تو روشنی کے سوا اور کچھ بھی ہے
یہ کار ہست و بود بجا اور کچھ بھی ہے
یہ کائنات اذن ہے اس کے وجود کا
سننے میں آ رہا ہے بتا اور کچھ بھی ہے
اے میرے مہربان، مِرے دوست، بند کر
یہ واہمہ نہیں ہے حقیقت ہے سب کمال
میں ہی نہیں ہوں شعلہ نما اور کچھ بھی ہے
عبداللہ کمال
No comments:
Post a Comment