راحتِ وصل بنا ہجر کی شدت کے بغیر
زندگی کیسے بسر ہو گی محبت کے بغیر
اب کے یہ سوچ کے بیمار پڑے ہیں کہ ہمیں
ٹھیک ہونا ہی نہیں تیری عیادت کے بغیر
عشق کے ماروں کو آداب کہاں آتے ہیں
ہم سے پوچھو تو کہ ہم کیسے ہیں اے ہم وطنو
اپنے یاروں کے بنا، اپنی محبت کے بغیر
ملک تو ملک گھروں پر بھی ہے قبضہ اس کا
اب تو گھر بھی نہیں چلتے ہیں سیاست کے بغیر
عکس کس کا یہ اتر آیا ہے آئینے میں؟؟؟
کون یہ دیکھ رہا ہے مجھے حیرت کے بغیر
حاصلِ عشق اگر کچھ ہے تو وحشت ہے ضیا
اور انسان مکمل نہیں وحشت کے بغیر
ضیا ضمیر
No comments:
Post a Comment