ایک چہرہ بدلنے والے کے نام
یہ مانا کہ روشن ستارہ تِرا
اندھیروں میں جلتا ہوا میں دیا
تِرے چار سُو زر کی جھنکار سی
مجھے نہ میسر ہے دو وقت کی
تِری بات کا ہر کسی کو لحاظ
مِرا سچ بھی سُولی پہ لٹکا رہے
تِرے جھوٹ پر سب کو اثبات ہے
تِرے پاس بیٹھیں خوشامد مزاج
تِرے گُن جو گاتے ہیں اے دوست آج
مبادا ہوں کل تجھ سے بیزار یہ
پجاری ہیں کرسی کے سرکار یہ
تُو حلقے میں ان کے ہے بیٹھا ہوا
تُو دانش کا داعی تھا، یہ کیا ہوا
تجھ سنگ و پارس کی پہچان تھی
تِرے جسم میں تو مِری جان تھی
شکستہ سے کمرے میں جاڑے کے دن
شب و روز مستی اکھاڑے کے دن
سرِ رہگذر بے سبب قہقہے
کہاں کھو گئے ہیں وہ سب قہقہے
وہ لُڈو، وہ فلمیں، وہ شوخی، وہ بھوک
کبھی یاد آئیں تو اٹھتی ہے ہُوک
جو فرصت ملے تجھ کو، ماضی میں جھانک
بدن برہنہ ہے، بدن اپنا ڈھانک
اگر یاد ہو، تُو بھی مزدور تھا
کہ افلاس کے ہاتھوں مجبور تھا
جو بھولا ہوا ہے وہ سب یاد کر
مِرے دوست کو خود سے آزاد کر
اگر وقت کے ہاتھوں لاچار ہوں
تو اتنا بتا دوں کہ خود دار ہوں
تِری بات میں تُرش لہجہ تِرا
بڑا بھید جیون کا مجھ پر کھلا
غریبی، امیری کا کیا جوڑ ہے
تعلق کا یہ آخری موڑ ہے
بہت دوستی کا ہے رکھا بھرم
مگر اب تو سینے میں گھٹتا ہے دم
مجھے ناز ہے جو بھی، جیسا بھی ہوں
مگر آخری بات کہتا چلوں
الگ کل جو عہدے سے ہونا پڑے
تجھ پِھر اکیلے نہ رونا پڑے
اگر اب بھی سنبھلے تو کیا بات پے
وگرنہ تجھے وقت سے مات پے
رشید حسرت
No comments:
Post a Comment