Saturday 29 August 2020

سروں پر سے ردائیں مانگتی ہیں

عہدِ حاضر کی ایک نظم

سروں پر سے رِدائیں مانگتی ہیں
نجانے کیا فِضائیں مانگتی ہیں
نکلتے ہیں پِسر جب گھر سے باہر
دعا جینے کی مائیں مانگتی ہیں
نہِیں کچھ مانگتی ہم سے یہ بہنیں
فقط یہ فاختائیں مانگتی ہیں
کڑکتی دھوپ میں گلتی یہ نعشیں
قیادت سے گھٹائیں مانگتی ہیں
سِتم سہتے رہے ہم خامشی سے
یہ آہیں اب صدائیں مانگتی ہیں
حدیں اپنے وطن کی ہم سے یارو
شہِیدوں سی وفائیں مانگتی ہیں
رشیدؔ اتنا تو تُو بے حِس نہِیں تھا
تیری آنکھیں سزائیں مانگتی ہیں

رشید حسرت

No comments:

Post a Comment