اندھیرا کروٹ بدل رہا ہے
کہیں تو سورج نکل رہا ہے
سمٹ رہا ہے بدن میں سایہ
چراغ چپ چاپ جل رہا ہے
ڈری ڈری سی ہے کوئی خواہش
کسی کی آہٹ ہے دشتِ جاں میں
کوئی تو ہمراہ چل رہا ہے
دکھائی دینے لگی ہے دنیا
وفا کا جادو تو ڈھل رہا ہے
اسے گئے تو زمانہ گزرا
زمانہ اب ہاتھ مَل رہا ہے
مظفر ابدالی
No comments:
Post a Comment