Monday 31 August 2020

اندھیرا کروٹ بدل رہا ہے

اندھیرا کروٹ بدل رہا ہے
کہیں تو سورج نکل رہا ہے
سمٹ رہا ہے بدن میں سایہ
چراغ چپ چاپ جل رہا ہے
ڈری ڈری سی ہے کوئی خواہش
خیال کچھ کچھ سنبھل رہا ہے
کسی کی آہٹ ہے دشتِ جاں میں
کوئی تو ہمراہ چل رہا ہے
دکھائی دینے لگی ہے دنیا
وفا کا جادو تو ڈھل رہا ہے
اسے گئے تو زمانہ گزرا
زمانہ اب ہاتھ مَل رہا ہے

مظفر ابدالی

No comments:

Post a Comment