باغ میں پھولوں کو روند آئی سواری آپ کی
کس قدر ممنون ہے بادِ بہاری آپ کی
بے وفائی آپ کی، غفلت شعاری آپ کی
میرے دل نے عادتیں سیکھی ہیں ساری آپ کی
جا بجا ہوتے ہیں دامن گیر دل عشاق کے
یادِ ایامے کہ تھا زوروں جذبِ حسن و عشق
وہ مِرے دل کا تڑپنا، بے قراری آپ کی
ہے شبِ مہتاب گورے رنگ سے کپڑے سیاہ
حسن کو چمکا رہی ہے سوگواری آپ کی
آج کس پر رحم آیا کس کو روئے ہیں حضور
ہے نصیبِ دشمناں آواز بھاری آپ کی
عہد میں مجنوں کے لیلیٰ کا رہا کیا دور دور
اب تعشق کے زمانے میں ہے باری آپ کی
تعشق لکھنوی
No comments:
Post a Comment