Saturday 29 August 2020

چاہت کی لو کو مدھم کر دیتا ہے

چاہت کی لَو کو مدھم کر دیتا ہے 
ڈر جاتا ہے، ملنا کم کر دیتا ہے 
جلدی اچھے ہو جانے کا جذبہ بھی 
زخموں کو وقفِ مرہم کر دیتا ہے 
موت تو پھر بھی اپنے وقت پہ آتی ہے 
موت کا آدھا کام تو "غم" کر دیتا ہے 
سو غزلیں ہوتی ہیں اور مر جاتی ہیں 
اک "مصرع" تاریخ رقم کر دیتا ہے
دل میں ایسے دکھ نے ڈیرا ڈالا ہے 
ایسا "دکھ" جو آنکھیں نم کر دیتا ہے 
صبر کا دامن ہاتھوں سے مت جانے دو
صبر دلوں کی "وحشت" کم کر دیتا ہے

شکیل جمالی

No comments:

Post a Comment