کیا مجھے اور بھی کچھ بکھرا ہوا چاہتے ہو
ایک ٹوٹے ہوئے انسان سے کیا چاہتے ہو
خون پہنا تو ہوا ہے میری امیدوں کا
اور کیسی میرے زخموں سے قبا چاہتے ہو
ظلم کی کون سی یہ قسم ہے ، معلوم نہیں
صنفِ نازک کو بنایا ہے تماشا تم نے
تن پہ عریانیاں، آنکھوںمیں حیا چاہتے ہو
اپنی آواز کو زرخیز بنانا ہو گا
جلتے موسم میں اگر کالی گھٹا چاہتے ہو
حسنِ کردار سے تسکین ہو آخر کیسے
جس قدر جسم ہے قد اس سے بڑا چاہتے ہو
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment