Friday 28 August 2020

ہمیں تو ہر دور میں نئی کربلا ملی ہے

ہمیں تو ہر دور میں نئی کربلا ملی ہے

لبوں پہ الفاظ ہیں کہ پیاسوں کا قافلہ ہے
نمی ہے یہ یا فرات آنکھوں سے بہہ رہی ہے
حیات آنکھوں سے بہہ رہی ہے
سپاہِ فسق و فجور یلغار کر رہی ہے
دلوں کو مسمار کر رہی ہے

لہو لہو ہیں ہماری سوچیں
برہنہ سر ہے حیا تمنائیں بال نوچیں
وفا کے بازو کٹے ہوۓ ہیں
ہلاکتوں کے غبار سے زندگی کے میداں پٹے ہوۓ ہیں
دھواں ہر اک خیمۂ صدا سے نکل رہا ہے
ہر ایک اندر سے جل رہا ہے
ریا کے نیزوں پہ آج سچائیوں کے سر ہیں
یزیدیت کے اصول اپنے عروج پر ہیں
بڑی ہی ظالم ہے حق پسندی کو چین لینے نہ دے یہ دنیا
ہمیں تو کوفہ لگے یہ دنیا
قدم قدم آزمائشوں کی فضا ملی ہے
ہمیں تو ہر دور میں نئی کربلا ملی ہے

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment