عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ
کنبے کو ساتھ لے کے مدینے سے چل پڑے
شبیرؑ دین کے لیے گھر سے نکل پڑے
اکبرؑ کی تیغ دیکھ کے میدانِ جنگ میں
شمرِ لعین جیسے ہزاروں اچھل پڑے
عباسؑ کوئی آپ سے پانی نہ مانگے گا
اصغرؑ کی اس ادائے شہادت کو سوچ کر
آنکھوں سے شادمانی کے موسم بدل پڑے
کرتا ہوں بات اس لیے حیدرؑ کے لعل کی
تاکہ ہر اک یزید کے ماتھے پہ بل پڑے
تُو کون ہے یزید جو پانی کو بند کرے؟
کہہ دیں اگر حسینؑ تو دریا اچھل پڑے
حمزہ نقوی
No comments:
Post a Comment