Sunday 30 August 2020

کنبے کو ساتھ لے کے مدینے سے چل پڑے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

کنبے کو ساتھ لے کے مدینے سے چل پڑے
شبیرؑ دین کے لیے گھر سے نکل پڑے
اکبرؑ کی تیغ دیکھ کے میدانِ جنگ میں
شمرِ لعین جیسے ہزاروں اچھل پڑے
عباسؑ کوئی آپ سے پانی نہ مانگے گا
عباسؑ لوٹ آئیں کہ زینبؑ سنبھل پڑے
اصغرؑ کی اس ادائے شہادت کو سوچ کر
آنکھوں سے شادمانی کے موسم بدل پڑے
کرتا ہوں بات اس لیے حیدرؑ کے لعل کی
تاکہ ہر اک یزید کے ماتھے پہ بل پڑے
تُو کون ہے یزید جو پانی کو بند کرے؟
کہہ دیں اگر حسینؑ تو دریا اچھل پڑے

حمزہ نقوی

No comments:

Post a Comment