نہیں ہے اب کوئی رستہ نہیں ہے
کوئی جُز آپ کے، اپنا نہیں ہے
ہر اک رستے کا پتھر پوچھتا ہے
تجھے کیا کچھ بھی اب دکھتا نہیں ہے
عجب ہے روشنی تاریکیوں سی
پرستش کی ہے میری دھڑکنوں نے
تجھے میں نے فقط چاہا نہیں ہے
میں شاید تیرے دکھ میں مر گیا ہوں
کہ اب سینے میں کچھ دُکھتا نہیں ہے
لٹا دی موت بھی قدموں پہ تیرے
بچا کر تجھ سے کچھ رکھا نہیں ہے
قیامت ہے یہی "ادراک" جاناں
میں اس کا ہوں کہ جو میرا نہیں ہے
مِری باتیں ہیں سب باتیں تمہاری
مِرا اپنا کوئی "قصہ" نہیں ہے
تجھے محسوس بھی میں کر نا پاؤں
اندھیرا ہے مگر "اتنا" نہیں ہے
فرحت شہزاد
No comments:
Post a Comment