Saturday 29 August 2020

نہیں ہے اب کوئی رستہ نہیں ہے

نہیں ہے اب کوئی رستہ نہیں ہے
کوئی جُز آپ کے، اپنا نہیں ہے
ہر اک رستے کا پتھر پوچھتا ہے
تجھے کیا کچھ بھی اب دکھتا نہیں ہے
عجب ہے روشنی تاریکیوں سی
کہ میں ہوں اور مِرا سایہ نہیں ہے
پرستش کی ہے میری دھڑکنوں نے
تجھے میں نے فقط چاہا نہیں ہے
میں شاید تیرے دکھ میں مر گیا ہوں
کہ اب سینے میں کچھ دُکھتا نہیں ہے
لٹا دی موت بھی قدموں پہ تیرے
بچا کر تجھ سے کچھ رکھا نہیں ہے
قیامت ہے یہی "ادراک" جاناں
میں اس کا ہوں کہ جو میرا نہیں ہے
مِری باتیں ہیں سب باتیں تمہاری
مِرا اپنا کوئی "قصہ" نہیں ہے
تجھے محسوس بھی میں کر نا پاؤں
اندھیرا ہے مگر "اتنا" نہیں ہے

فرحت شہزاد

No comments:

Post a Comment