روکھی روٹی کما کے لایا ہوں
میں کہ بیوی کے سر کا سایا ہوں
غیر نے کیوں سمجھ لیا اپنا
میں تو اپنوں کو بھی پرایا ہوں
ظلم کی فصل کٹ گئی لیکن
ہو کے مجبور بھوک کے ہاتھوں
شاعری بیچنے پہ آیا ہوں
بارہا جس نے مجھ کو دھتکارا
آج پھر اس سے ملنے آیا ہوں
دوست کی ماں، جو ماں کے جیسی تھی
تعزیت میں نہ کرنے پایا ہوں
آج پھر رزق کی تلاش میں تھا
پھر سے ناکام لوٹ آیا ہوں
آج بیٹی کا گھر بسایا ہے
آج پھولے نہیں سمایا ہوں
لے اڑی مجھ کو ایک شہزادی
اس کی آنکھوں میں یوں سمایا ہوں
میری حرکت پہ سب ہیں برہم سے
اہلِ خانہ کو میں نہ بھایا ہوں
گھر سے جنگل کو ہجرتیں ٹھہریں
میں ٹھکانے پہ اپنے آیا ہوں
آج سے ملک دشمنوں کو رشیدؔ
رب نے چاہا تو میں صفایا ہوں
رشید حسرت
No comments:
Post a Comment