Saturday 29 August 2020

روکھی روٹی کما کے لایا ہوں

روکھی روٹی کما کے لایا ہوں
میں کہ بیوی کے سر کا سایا ہوں
غیر نے کیوں سمجھ لیا اپنا
میں تو اپنوں کو بھی پرایا ہوں
ظلم کی فصل کٹ گئی لیکن
ایک میں ہی ابھی بقایا ہوں
ہو کے مجبور بھوک کے ہاتھوں
شاعری بیچنے پہ آیا ہوں
بارہا جس نے مجھ کو دھتکارا
آج پھر اس سے ملنے آیا ہوں
دوست کی ماں، جو ماں کے جیسی تھی
تعزیت میں نہ کرنے پایا ہوں
آج پھر رزق کی تلاش میں تھا
پھر سے ناکام لوٹ آیا ہوں
آج بیٹی کا گھر بسایا ہے
آج پھولے نہیں سمایا ہوں
لے اڑی مجھ کو ایک شہزادی
اس کی آنکھوں میں یوں سمایا ہوں
میری حرکت پہ سب ہیں برہم سے
اہلِ خانہ کو میں نہ بھایا ہوں
گھر سے جنگل کو ہجرتیں ٹھہریں
میں ٹھکانے پہ اپنے آیا ہوں
آج سے ملک دشمنوں کو رشیدؔ
رب نے چاہا تو میں صفایا ہوں

رشید حسرت

No comments:

Post a Comment