عیاں ہوئی بڑی شدت سے بے بسی مجھ پر
جب اس نے طنز کی تلوار کھینچ لی مجھ پر
بچھڑنے والے بھلا کس طرح بتاؤں تمہیں
تمہارے بعد جچی ہے جو سادگی مجھ پر
غموں کی دھوپ میں ابرِ سخن امڈ آیا
میں غم چھپا کے لطیفے سنا رہا تھا اسے
ہنسی ہنسی میں ہنسی بھی بہت ہنسی مجھ پر
پھر ایک دن اسے آنس معین ملوایا
جتائے جاتی تھی احسان زندگی مجھ پر
اور اسکے بعد تھکن کے حوالے ختم ہوئے
تھکی ہوئی کوئی دیوار آ گری مجھ پر
ہزاروں بھیس بدل کر بھی نا مراد رہا
مِرے خدا! تِری دنیا نہیں کھلی مجھ پر
راکب مختار
No comments:
Post a Comment