میں نے وہ نظم لکھی ہے کہ خدا جانتا ہے
اس کا ہر لفظ خدائی کا پتا جانتا ہے
میری آنکھوں میں یہ تصویر ذرا غور سے دیکھ
مجھ کو اس شخص سے ملنا ہے، بتا جانتا ہے
میں بھی زنجیر نہیں ہوتا کسی وحشت سے
وہ بھی تنہائی سے بچنے کی دعا جانتا ہے
دن تو میں پھر بھی کسی ڈھب سے بِتا لیتا ہوں
رات جو مجھ پہ گزرتی ہے، خدا جانتا ہے
میری صورت یہ دکھائے بھی تو کیسے مجھ کو
میرے بارے میں یہ آئینہ بھی کیا جانتا ہے
میرے کشکول کو بھر دے کہ میں خالی ہوں بہت
تجھ سوا کون سخی میرا پتا جانتا ہے
دل کے بارے میں مَیں تفصیل بتاؤں تمھیں کیا
مختصر یہ کہ محبت کو سزا جانتا ہے
مسئلہ یہ ہے کہ میں خوش ہوں اکیلا ہو کر
اس قدر خوش کہ فقط میرا خدا جانتا ہے
زندگی کھیل ہے شطرنج سے بھی پیچیدہ
جاننے والا بھی اس باب میں کیا جانتا ہے
حرف کو حرف بتاتا ہے وہ خاموش دہن
صوت کو صوت سمجھتا ہے صدا جانتا ہے
میر کی مجھ کو سند دے تو میں سوچوں اس پر
ناروا حرف کو جو حرفِ روا جانتا ہے
دل دھڑکنے کی بھی آواز نہیں آتی زیب
ایسی خاموشی کو تو کیسے صدا جانتا ہے
زیب اورنگ زیب
No comments:
Post a Comment