گھر تو ہمارا شعلوں کے نرغے میں آ گیا
لیکن تمام شہر اجالے میں آ گیا
یہ بھی رہا ہے کوچۂ جاناں میں اپنا رنگ
آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آ گیا
اب تو محبتوں کا محبت سے دے جواب
کچھ دیر تک تو اس سے مِری گفتگو رہی
پھر یہ ہوا کہ وہ مِرے لہجے میں آ گیا
آندھی بھی بچپنے کی حدوں سے گزر گئی
مجھ کو بھی لطف شمع جلانے میں آ گیا
ہونٹوں پہ غیبتوں کی خراشیں لیے ہوئے
یہ کون آئینوں کے قبیلے میں آ گیا
اظہر شکم کی آگ پہ قابو نہ پا سکا
وہ بھی غزل سنانے کو میلے میں آ گیا
اظہر عنایتی
No comments:
Post a Comment