شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے
دل دھڑکتے ہی رہے آس میں انسانوں کے
علم نے خیر نہ چاہی کبھی انسانوں کی
نقش ملتے رہے کعبے میں صنم خانوں کے
زندگی والہ و شیدا رہی فرزانوں کی
مریمی مورد تہمت رہی ارمانوں کی
ٹکڑے ایک دفترِ الزام ہیں دامانوں کے
فکر سب کو ہے رفو کے لیے سامانوں کی
پوچھتا کوئی نہیں حال گریبانوں کے
قدر کچھ کم تو نہیں اب بھی تن آسانوں کی
روز و شب آج بھی بھاری ہیں گراں جانوں کے
مختار صدیقی
No comments:
Post a Comment