Saturday 29 August 2020

رشتوں کی دلدل سے کیسے نکلیں گے

رشتوں کی دلدل سے کیسے نکلیں گے
ہر سازش کے پیچھے اپنے نکلیں گے
چاند ستارے گود میں آ کر بیٹھ گئے
سوچا یہ تھا، پہلی بس سے نکلیں گے
سب امیدوں کے پیچھے مایوسی ہے
توڑو، یہ بادام بھی کڑوے نکلیں گے
میں نے رشتے طاق پہ رکھ کر پوچھ لیا
اس چھت پر کتنے پرنالے نکلیں گے؟
جانے کب یہ دوڑ تھمے گی سانسوں کی
جانے کب پیروں سے جوتے نکلیں گے
ہر کونے سے تیری خوشبو آئے گی
ہر صندوق میں تیرے کپڑے نکلیں گے
اپنے خون سے اتنی تو امیدیں ہیں
اپنے بچے بھیڑ سے آگے نکلیں گے

شکیل جمالی

No comments:

Post a Comment