یہی تو ہے جو خیالوں سے جا نہیں رہا ہے
یہ آدمی جو مِرا فون اٹھا نہیں رہا ہے
ہمارے بیچ کوئی باوفا نہیں رہا ہے
یہ بات کوئی کسی کو بتا نہیں رہا ہے
کسی کا ساتھ میاں جی سدا نہیں رہا ہے
جو اقربأ تھے مِری غیبتوں میں لگ گئے ہیں
کہ اب کسی کو کوئی مشغلہ نہیں رہا ہے
سب اپنے اپنے کٹورے لیے کھڑے ہوئے ہیں
کسی کے ہاتھ ابھی کچھ بھی آ نہیں رہا ہے
یہ چند فیصلہ کن ساعتیں ہیں سب کے لیے
اسی لیے تو کوئی مسکرا نہیں رہا ہے
کہیں اسے مِرا نعم البدل نہ مل گیا ہو؟
کئی دنوں سے مِری سمت آ نہیں رہا ہے
شکیل جمالی
No comments:
Post a Comment