زباں بندی کی عادت ہو گئی ہے
ہمیں زنداں سے الفت ہو گئی ہے
وہ جب سے چھوڑ کر بستی گیا ہے
ہر اک برکت ہی رخصت ہو گئی ہے
خدائے صبح و رب روز روشن
اندھیروں کی حکومت ہو گئی ہے
گرے فالج زباں پہ جو نہ بولی
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے
ہمیں دیوار میں چنوا دیں صاحب
اگر اینٹوں کی قلّت ہو گئی ہے
کبھی تھی اپنی دستارِ فضیلت
جو اب موجبِ ذلت ہو گئی ہے
کفن پہنا ہی دیتے ہیں مخیّر
چلیں کچھ تو سہولت ہو گئی ہے
نہیں اتنے برے ہم مہربانو
کہ جتنی اپنی شہرت ہو گئی ہے
عباس برمانی
No comments:
Post a Comment