Saturday, 29 August 2020

عجب نہیں ہے معالج شفا سے مر جائیں

عجب نہیں ہے معالج شفا سے مر جائیں
مریض زہر سمجھ کر دوا سے مر جائیں
یہ سوچ کر ہی ہمیں خود کشی ثواب لگی
جو کی ہے ماں نے تو پھر بد دعا سے مر جائیں
یہ 'احتجاج' سمندر کے دم کو کافی ہے
کسی کنارے پہ دو چار پیاسے مر جائیں
فسادیوں کو میں اس شرط پر رہا کروں گا
کہ فاختہ کے پروں کی ہوا سے مر جائیں
تُو اپنے لہجے کی رِقت کو تھوڑا کم کر دے
فقیر لوگ نہ تیری 'صدا' سے مر جائیں
اٹھا کے پھرتے ہیں ہم آپ صرف نام تو لیں
قسم سے آپ تو کاسے کی 'کا' سے مر جائیں

راکب مختار

No comments:

Post a Comment