عجب نہیں ہے معالج شفا سے مر جائیں
مریض زہر سمجھ کر دوا سے مر جائیں
یہ سوچ کر ہی ہمیں خود کشی ثواب لگی
جو کی ہے ماں نے تو پھر بد دعا سے مر جائیں
یہ 'احتجاج' سمندر کے دم کو کافی ہے
فسادیوں کو میں اس شرط پر رہا کروں گا
کہ فاختہ کے پروں کی ہوا سے مر جائیں
تُو اپنے لہجے کی رِقت کو تھوڑا کم کر دے
فقیر لوگ نہ تیری 'صدا' سے مر جائیں
اٹھا کے پھرتے ہیں ہم آپ صرف نام تو لیں
قسم سے آپ تو کاسے کی 'کا' سے مر جائیں
راکب مختار
No comments:
Post a Comment