Monday 31 August 2020

جنگلوں میں گھنی جھاڑیوں سے نکلتی ہوئی

The Axiom of Infinity

جنگلوں میں گھنی جھاڑیوں سے نکلتی ہوئی
کس نے دیکھی تھیں
صحراؤں میں تِشنگی ناپتی
ڈر کے غاروں میں سہمے ہوئے
چار پایوں کے تن پہ برستی ہوئی مہرباں وُسعتیں؟

ذہنِ انساں کی خستہ عمارت کی تنگی میں آ کر بسیِں
سنگ سے برق تک
دورِ وحشت سے تہذیب تک
کس نے دیکھی تھیں پگڈنڈیوں پہ جو لرزاں ہوئیں وُسعتیں؟
کس تخیل کی تخلیق ہیں
کن قوانین نے ان کو پیدا کیا؟
ہر سبب اور مسبب سے بالا
ازل کی سُرنگوں سے ہوتی ہوئی
یہ ابد گھاٹیوں میں اتر جائیں گی
عالمی دونوں جنگوں سے پہلے کے سب عارفوں
عارفاؤں کے غم
بعد کی آندھیاں
ساتھ لے جائیں گی
کیا خبر ان ابد گھاٹیوں سے پَرے
ڈر کے غاروں میں سہمے ہوئے چار پائے کہیں
دورِ وحشت سے تہذیب تک کے بڑے
المیے کے ہوں پھر منتظر؟
اور ان پر برسنے لگیں مہرباں ہو کے
شیطان گر وُسعتیں

نوشین قمبرانی

No comments:

Post a Comment