پہاڑ لوگ تھے، غداریوں پہ وارے گئے
پسِ غبار مِرے شہسوار مارے گئے
جزا کے طور پہ زندہ رکھا گیا مجھ کو
سزا کے طور پہ آنکھوں میں تیر مارے گئے
تمہارے بعد وہ تسبیح توڑ دی ہم نے
غریب تر تھا ہمیں ہم سے مانگنے والا
صدا کے لہجے میں ہم دیر تک پکارے گئے
انہیں مِری، مجھے ان کی اشد ضرورت تھی
جدھر جدھر میں گیا اس طرف خسارے گئے
بلا سبب نہیں تڑپا زمینٍ مقتل پر
مِرے قریب سے قاتل مِرے گزارے گئے
راکب مختار
No comments:
Post a Comment