Friday 28 August 2020

بھٹک گیا تھا کسی آنکھ میں قیام سے میں

بھٹک گیا تھا کسی آنکھ میں قیام سے میں
نکل سکا نہ کبھی مے کدے کی شام سے میں
وہ بات بات میں دنیا کی بات کرتا ہے
کلام کیسے کروں ایسے بد کلام سے میں
خدا کرے مجھے مرنے کا ڈھنگ آ جائے
گلا رکھوں تِرے خنجر پہ احترام سے میں
بوقت جنگ یہ پیاسا پکڑ میں آیا تھا
طلب کروں گا نہ پانی کبھی غلام سے میں
یہ رات دن کے حوالے بھی اپنا شجرہ ہیں
تُو اجلی صبح سے ہے اور گہری شام سے میں
معافی مانگنے والوں کو قتل کیوں نہ کیا
یہ بات کہہ کے نکالا گیا خیام سے میں
یہاں وہاں سے مِرے ٹکڑے دوڑ کر آتے
اگر پکارا گیا ہوتا تیرے نام سے میں

راکب مختار

No comments:

Post a Comment