نورِ سحر کہاں ہے، اگر شامِ غم گئی
کب التفات تھا، کہ جو خُوئے ستم گئی
پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے
یہ چال ہے خزاں کی جو رک رک کے تھم گئی
شاید کوئی اسیر ابھی تک قفس میں ہے
قبضے میں جوشِ گل، نہ خزاں دسترس میں ہے
راحت بھی کب ملی ہے، اگر وجہِ غم گئی
ہاں طرحِ آشیاں بھی انہی خار و خس میں ہے
بجلی، جہاں پہ خاص برنگِ کرم گئی
کچھ شائبہ گریز کا بھی پیش و پس میں ہے
وہ بے رخی کہ ناز کی تھی جو بھرم، گئی
جادو غزل کا جذبِ تمنا کے رس میں ہے
یعنی وہ دل کی بات دلوں میں جو رم گئی
مختار صدیقی
No comments:
Post a Comment