کیا خبر اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ آئے
خود بہ خود تیر نشانے کی طرف لوٹ آئے
سنگ لوٹ آئے پہاڑوں کی طرف آخرِ کار
آئینے آئینہ خانے کی طرف لوٹ آئے
جب کھلا ان پہ کہ نقشہ مِرے صندوق میں ہے
رات بدمست رہے ثابت و سیار کے ساتھ
صبح ہوتے ہی زمانے کی طرف لوٹ آئے
گارا تیار ہے اور چاک بھی موجود ہے اب
کوزہ گر کوزہ بنانے کی طرف لوٹ آئے
ہجر کو جھیلنا آسان کہاں تھا اے دل
ہم محبت میں بہانے کی طرف لوٹ آئے
بھیک اس شہر میں ملنا کوئی آسان نہیں
یعنی مجبور کمانے کی طرف لوٹ آئے
اور پھر دشتِ تمنا میں بھٹکتے ہوئے لوگ
آرزو مند ٹھکانے کی طرف لوٹ آئے
اپنا کردار نبھانے کی تگ و تاز میں زیب
ہم کہانی سے فسانے کی طرف لوٹ آئے
زیب اورنگ زیب
No comments:
Post a Comment