Monday 31 August 2020

کاٹ کر پاؤں عجب طعنہ دیا جاتا ہے

کاٹ کر پاؤں عجب طعنہ دیا جاتا ہے
لڑکھڑاتے ہوئے شخص ایسے چلا جاتا ہے
شام کے بَین مجھے توڑ کے رکھ دیتے ہیں
ڈھلتا سورج مِرے اعصاب پہ چھا جاتا ہے
اے رفوگر! تِرے ہاتھوں کی نفاست کی قسم
میرے ہر زخم کو عجلت میں سِیا جاتا ہے
خامشی توڑ مجھے، جینے پہ آمادہ کر
تیرا چپ رہنا مِری عمر گھٹا جاتا ہے
میں رہائی کی تدابیر فقط سوچتا ہوں
نیزہ بردار مِرے سامنے آ جاتا ہے
جن کی آنکھوں میں نظر آتی ہے جینے کی امنگ
ایسے لوگوں کو یہاں مار دیا جاتا ہے
اک جنازے کی طرح گھر سے برآمد ہو کر
اشک بھی آنکھ کی بنیاد ہلا جاتا ہے

راکب مختار

No comments:

Post a Comment