کاٹ کر پاؤں عجب طعنہ دیا جاتا ہے
لڑکھڑاتے ہوئے شخص ایسے چلا جاتا ہے
شام کے بَین مجھے توڑ کے رکھ دیتے ہیں
ڈھلتا سورج مِرے اعصاب پہ چھا جاتا ہے
اے رفوگر! تِرے ہاتھوں کی نفاست کی قسم
خامشی توڑ مجھے، جینے پہ آمادہ کر
تیرا چپ رہنا مِری عمر گھٹا جاتا ہے
میں رہائی کی تدابیر فقط سوچتا ہوں
نیزہ بردار مِرے سامنے آ جاتا ہے
جن کی آنکھوں میں نظر آتی ہے جینے کی امنگ
ایسے لوگوں کو یہاں مار دیا جاتا ہے
اک جنازے کی طرح گھر سے برآمد ہو کر
اشک بھی آنکھ کی بنیاد ہلا جاتا ہے
راکب مختار
No comments:
Post a Comment