Monday 31 August 2020

ہر ذرے کی نمود میں اعلان جنگ ہے

ہر ذرے کی نمود میں اعلانِ جنگ ہے
دنیا نہیں ہے دوست یہ میدان جنگ ہے
اس سے شکست و فتح کا اندازہ کیجیے
حالت مِرے عدو کی جو دورانِ جنگ ہے
پھیلا ہوا ہے سرخ اجالا چہار سو
روشن لہو سے شمعِ شبستانِ جنگ ہے
بزدل کوئی نہ پیدا ہوا اس قبیل میں
سب سے بڑا تو ہم پہ یہ احسانِ جنگ ہے
سرحد پہ آج کل ہے تناؤ کی کیفیت
دونوں طرف کی خیر ہو امکانِ جنگ ہے
شمشیر، تیر، چھریاں، بھالے، تبر، حجر
یہ اور کچھ نہیں سر و سامانِ جنگ ہے
لبیک کہہ کے شاملِ تائید ہو رہو
وسعت پذیر حلقۂ دامانِ جنگ ہے
ہر سانس کھینچتا ہوں میں دشمن کے خوف میں
مشکل بہت ہے زندگی گزرانِ جنگ ہے
آزر مِرے عدو کو یہ تعلیم ہو نہ ہو
میں تو وہی کروں گا جو شایانِ جنگ ہے

دلاور علی آزر

No comments:

Post a Comment