Monday 31 August 2020

وسائل؛ سکھ کے موسم کی نظموں سے

وسائل

سُکھ کے موسم کی نظموں سے
لفظوں کے مُردوں کی بُو پھیلتی جا رہی ہے یہاں
جبکہ سازِ بقا کی صداؤں میں محرومیوں
بے بسیوں کی آہیں گھٹی جاتی ہیں
آپ اپنے جگر نوچ ڈالے ہیں عشاق نے
پر بھلائی کے وقتوں کی تصویر روشن نہیں
بحر و بر کے خزانوں سے ہٹ کر
بقا کی تمنا کے مارے ہوؤں کے وسائل فقط
جستجو کے یہی پھول ہیں
جن کی جانب ترقی کے خواہاں اداروں کی
انسانیت کے بڑے ٹھیکہ داروں کی، نظریں نہیں
ان کے آقاؤں کو سود کے کھیل سے
کیونکہ فرصت نہیں
عالمی طاقتوں کی بڑی منڈیوں میں ابھی
خیر کے خواب کی کوئی وُقعت نہیں

نوشین قمبرانی

No comments:

Post a Comment